صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کا مقدمہ عالمی عدالت میں دائر

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

الجزیرہ نیٹ ورک نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں اسرائیلی فورسز کے خلاف صحافی شیریں ابوعاقلہ کے قتل کا مقدمہ دائر کیا ہے۔

فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو 11 مئی کو غرب اردن کے شہر جنین کی ایک سڑک پر گولی لگی تھی جہاں اسرائیلی فوج اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔

اسرائیلی فوج نے یہ کہا تھا کہ شاید اس کے کسی فوجی نے ان پر فائرنگ کی ہوگی لیکن ان کی موت کو غیر ارادی قرار دیا گیا تھا۔

الجزیرہ کا کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر بے بنیاد ہے اور شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ’قتل جان بوجھ کر‘ کیا گیا تھا۔

سبکدوش ہونے والے اسرائیلی وزیر اعظم ائر لیپڈ نے کہا تھا کہ ’کوئی بھی اسرائیلی دفاعی افواج کے فوجیوں کی تحقیقات نہیں کرے گا اور کوئی ہمیں جنگ میں اخلاقیات کے بارے میں نہیں بتا سکتا یقینی طور پر الجزیرہ تو بالکل نہیں۔‘

اسرائیل آئی سی سی کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتا اور اس نے ہیگ میں قائم عدالت کے پراسیکیوٹر کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

51 سالہ شیریں ابو عاقلہ 11 مئی کو الجزیرہ کے عربی ٹی وی چینل کے لیے رپورٹنگ کرنے جنین پناہ گزین کیمپ گئی تھیں، جہاں اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ ہوئی تھی۔

جب انھیں ہلاک کیا گیا اس وقت انھوں نے ہیلمٹ اور نیلے رنگ کی بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر واضح طور پر لفظ ’پریس‘ لکھا ہوا تھا اور وہ دوسرے صحافیوں کے ساتھ سڑک پر چل رہی تھیں۔ اس فائرنگ میں ایک اور صحافی کو بھی گولی لگی تھی۔

وہاں موجود صحافیوں، عینی شاہدین اور فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ گولی تقریباً 200 میٹر دور تعینات اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے چلی تھی۔ بعد میں اقوام متحدہ اور متعدد میڈیا تنظیموں کی تحقیقات میں ان الزامات کی تصدیق کی گئی تھی۔

اسرائیل ڈیفنس فورسز نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ یہ جاننا ممکن نہیں ہے کہ ابو عاقلہ کو کس نے مارا ہے۔ لیکن ستمبر میں ایک سینئر اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ انہیں ’غلطی سے اسرائیلی فوجی نے گولی مار دی، اور یقیناً اس نے ان کی شناخت صحافی کے طور پر نہیں کی تھی۔‘

دو حہ میں مقیم نیٹ ورک الجزیرہ نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس کی قانونی ٹیم نے قتل کی تفصیلی تحقیقات کی ہیں اور نئے شواہد کا پتہ لگایا ہے، جس میں عینی شاہدین کے بیانات اور متعدد ویڈیوز شامل ہیں۔‘

’الجزیرہ نے آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے وقت اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ نئے گواہوں کے شواہد اور ویڈیو فوٹیج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شیرین اور ان کے ساتھیوں پر اسرائیلی فورسز (آئی ڈی ایف) نے براہ راست فائرنگ کی تھی۔ اسرائیلی حکام کا یہ دعویٰ کہ شیرین غلطی سے فائرنگ میں ماری گئی تھیں، بالکل بے بنیاد ہے‘۔

 ’آفس آف پراسیکیوٹر کو پیش کیے گئے شواہد بغیر کسی شک کے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جس علاقے میں شیریں تھیں وہاں کوئی فائرنگ نہیں ہوئی، آئی آو ایف نے ان پر براہ راست گولیاں برسائیں۔ جب یہ صحافی اپنی مخصوص میڈیا جیکٹ پہنے سڑک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے، اور سڑک پر کوئی دوسرا شخص نہیں تھا اس وقت فوجی انہیں صاف طور پر دیکھ سکتے تھے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ثبوت سے پتہ چلتا ہے کہ جان بوجھ کر کیا جانے والا یہ قتل الجزیرہ کو نشانہ بنانے اور خاموش کرنے کی ایک وسیع مہم کا حصہ تھا۔‘

الجزیرہ کے وکیل روڈنی ڈکسن کے سی نے کہا ہے کہ مبینہ مہم میں مئی 2021 میں ہونے والا اسرائیلی فضائی حملہ بھی شامل ہے جس میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی کے دوران الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر کے غزہ سٹی ٹاور بلاک کو تباہ کر دیا گیا تھا۔

ابو عاقلہ کے اہل خانہ، جنھوں نے ستمبر میں آئی سی سی میں اپنی شکایت جمع کرائی تھی، نے کہا کہ وہ الجزیرہ کی درخواست کی حمایت کرتے ہیں۔

ان کی بھانجی لینا ابو عاقلہ نے دی ہیگ میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ شواہد بہت زیادہ واضح ہیں، ہم توقع کرتے ہیں کہ آئی سی سی کارروائی کرے گی۔

Share This Article
Leave a Comment