سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر وزیرآباد میں ہونے والے حملے کا مقدمہ فوری طور پر درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالتی حکم کے مطابق اگر 24 گھنٹوں میں مقدمہ درج نہ ہوا تو سپریم کورٹ اس معاملے پر از خود نوٹس لے سکتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت پیر کو سپریم کورٹ میں پانچ رکنی بینچ نے شروع کی تو چیف جسٹس نے پنجاب کی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) فیصل شاہ کار کو روسٹرم پر بلا لیا۔ آئی جی پنجاب سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں ویڈیو لنک پر عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے آئی جی فیصل شاہ کار سے استفسار کیا کہ وہ عدالت کو آگاہ کریں کہ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کتنے وقت میں درج کی جائے گی؟
مقامی میڈیا کے مطابق آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ پنجاب کی حکومت کی جانب سے احکامات ملے تھے کہ اس معاملے کا مقدمہ درج نہیں کرنا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صوبائی حکومت کا مؤقف مختلف ہو تب بھی پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ”قومی لیڈر کے قتل کی کوشش کی گئی، معاملے کی نزاکت کو سمجھیں۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ مقدمے کے اندراج میں تاخیر ہو رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ شواہد ضائع ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کرمنل جسٹس سسٹم کو بغیر کسی رکاوٹ کے فعال رکھنے کو یقینی بنائے گی۔
پولیس کو احکامات جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 24 گھنٹوں میں اس معاملے کی ایف آئی آر درج کی جائے ورنہ اس پر سوموٹو نوٹس لیا جائے گا۔ فی الحال عدالت اس معاملے پر از خود نوٹس نہیں لے رہی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ایک قومی رہنما پر حملہ کیا گیا ہے۔ فوجداری نظام کے تحت پولیس از خود اس واقعے کا مقدمہ درج کر سکتی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پولیس اور اس کے سربراہ آئی جی کو تحفظ عدالت دے گی۔
عمران خان پر حملے کے حوالے سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 90 گھنٹے گزر گئے اور اس واقعے کا مقدمہ درج نہیں ہوا۔ ایف آئی آر کے اندراج کے بغیر تفتیش کیسے ہوگی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ درج نہ ہونے کی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔
انہوں نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ قانون کے مطابق کام کریں، عدالت آپ کے ساتھ ہے۔ آپ افسران سے تفتیش کروائیں۔ جب تک آپ عہدے پر ہیں کوئی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا۔ کسی نے مداخلت کی تو عدالت اس کے کام میں مداخلت کرے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ اگر اس معاملے میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تو اس میں آئی جی جواب دہ ہوں گے۔ اس لیے وہ تفتیش کریں اور شواہدجمع کیے جائیں جب کہ ان کے فرانزک بھی کرائے جائیں۔
واضح رہے کہ تین نومبر کو پنجاب کے علاقے وزیر آباد میں عمران خان پر اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا تھا جب ان کی قیادت میں حکومت مخالف لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب گامزن تھا۔
حملہ آور کو اسی وقت گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان نے وزیرِ اعظم شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی کے افسر میجر جنرل فیصل نصیر کو حملے کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔
عمران خان زخمی ہونے کے بعد سے لاہور میں شوکت خانم کینسر اسپتال میں زیرِ علاج تھے، جہاں سے اتوار کو لاہور میں ان کے گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔ گھر منتقلی سے قبل اسپتال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے منگل سے ایک بار پھر لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا البتہ وہ خود لانگ مارچ میں راولپنڈی سے آگے اس کی قیادت کریں گے۔
لانگ مارچ پر حملے کے بعد تحریکِ انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ اُن کی قانونی ٹیم اور مقامی عہدے دار مقدمہ درج کرانے تھانہ سٹی وزیرِ آباد گئے تھے البتہ پولیس نے ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست وصول کرنے سے انکار کیا تھا، جس پر تھانے کے باہر احتجاج کیا گیا۔