عوامی ورکرز پارٹی کے زیر اہتمام کامریڈ یوسف مستی خان کی یاد میں کراچی میں یادگاری ریفرنس کا انعقادکیا گیا۔
ریفرنس میں سرداراختر مینگل، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن حمید ساجنا اور دیگر رہنماء موجود تھے۔
اس موقع پر سرداراختر مینگل نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بڑی الجھن میں ہوں، مشکل میں ہوں، پتا نہیں احتیاط کروں نہ کروں آپ کا خیال کروں، اپنا خیال کروں، میں آسیب و جن بھوتوں پر یقین نہیں رکھتا لیکن جہاں بھی بات کرتا ہوں وہاں پر آسیب کا سایہ ہوتا ہے،وہاں پر آئی ایس آئی کا سایہ پڑتا ہے ان پر۔
یوسف خان مستی ایک عظیم رہنما تھے۔ جیسا کہ مجھ سے پہلے جلال محمود شاہ نے، محمود خان نے، مولانا فضل الرحمن نے وہ تاریخی حقائق آپ کے سامنے رکھے کہ کہاں سے ہمارے رشتے شروع ہوئے اور وہ سیاسی رشتے کہاں تک ہم پہنچے ہیں، کن مقاصد کیلئے وہ رشتے قائم کیے گئے تھے، اور آیا ان بزرگوں نے ان مقاصد کیلئے قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں، جلا وطنی کے دن گزارے، اس قوم اور اس علاقوں اور عوام کیلئے کیا آج ہم ان کی قربانیوں کے، ان کے قید و بند کے، ان کی اذیتوں کے ایک لمحے کیلئے بھی ان کی قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی جدوجہد کو آگے لے جانے کیلئے کوئی اقدام کیے ہیں۔
میں تو اپنی طرف سے یہ کہتا ہوں کہ ان کی قربانیوں اور جدوجہد کے مقابلے میں ایک فیصد بھی جدوجہد نہیں کی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بیشتر اور قیمتی ادوار عیش و عیاشی کے بجائے قید میں گزارے۔ کچھ حقائق کا اعتراف ہمیں کرنا ہوگا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سردار اختر مینگل نے یوسف مستی خان یادگاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس ملک میں جو کچھ ہوتا رہا ہے کیا دیگر ممالک میں ادارے اور پارلیمینٹ ہیں، دنیا کے سپر پاور ممالک کے کسی آرمی چیف کا نام یاد نہیں آتا۔ یہ عوامی نہیں ملٹری مملکت ہے، یہاں کسی وزیراعظم کو اختیار حاصل نہیں رہا۔ وہ قوتیں جن کے ہاتھوں سے حکومتیں بنتی ہیں وہ بیس سال پہلے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
جب سے یہ ملک بنا ہے اس دن سے ہم نے کوئی سکھ نہیں دیکھا ہے۔ مسنگ پرسن کا معاملہ کی اول دن سے اسکی مخالفت کی لیکن کسی نے نہیں سنا۔ ملکی میڈیا کو عمران خان کی ٹانگ کو لگی گولیاں نظر آتی ہیں لیکن بلوچ نوجوانوں کو لگی گولیاں نظر نہیں آتیں۔ ملتان نشتر ہسپتال پر پانچ سو لاشوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، جس طرح انہیں چھپایا جارہا ہے میں سمجھتا ہوں یہ میرے بچوں کی لاشیں ہیں ورنہ آپ آسمان سر پر اٹھاتے۔ دس دس سال سے لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈتی ہیں کوئی انکا پتا بتانے کو تیار نہیں ہیں۔
پاکستان میں کنٹرولڈ ڈیمو کریسی ہے۔ گند کوئی اور کرتا ہے لیکن کالک ملنے کے لئے سیاستدان اپنا منہ پیش کرتے ہیں۔ اس ملک میں جو حقیقی سیاسی قیادت تھی انہیں پیچھے دھکیل کر اپنے بنائے ہوئے لیڈر سامنے لائے جاتے ہیں۔ یہاں سیاستدان خلائی مخلوق کو فلاحی مخلوق ثابت کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ ہم اپنی انا اور مفادات کی وجہ سے ایک پلیٹ فارم جمع نہیں ہوتا۔ ہم اقتدار کے لئے قوم و وطن بھول جاتے ہیں۔