بولان فوج کشی میں درجنوں مرد، خواتین و بچے جبری لاپتہ کیے گئے، بی این ایم

0
158

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے بولان کے مختلف علاقوں میں فوجی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بلوچ نسل کشی کو نئی نہج پر لے جاررہا ہے۔ سال کے بارہ مہینوں میں بلوچستان کے طول وعرض میں فوج کشی جاری رہتی ہے۔ ان فوجی آپریشنوں میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ انھوں نے کہاکہ بولان کے حالیہ فوجی آپریشن میں درجنوں مرد، خواتین اور بچے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیے گئے ہیں۔ جن میں زرگل مری، حنیفہ مری، در خاتون مری، ماھسو سمالانی، گل بی بی سمالانی، سمو سمالانی، زر بخت سمالانی، بانی سمالانی، سمیدہ سمالانی، فریدہ سمالانی، راجی سمالانی اور چار سال سے لاپتہ رکھیہ سمالانی کی اہلیہ مھنا سمالانی اور بیٹا کلیم سمالانی شامل ہیں۔

انھوں نے کہاکہ اس فوج کشی کے دوران چار نومبر کو سنگان کے نزدیک سفّاری کے مقام پر ’محمد غوث مری‘ کی مسخ شدہ لاش ملی جو گذشتہ سال (2021) ستمبر سے پاکستانی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ تھے۔

‘ انھوں نے کہا کہ بولان آپریشن بلوچ قوم کے خلاف جاری اجتماعی سزا کا حصہ ہے پاکستانی فوج نے بلوچ وطن کو نازی طرز پر کنسنٹریشن کیمپ میں تبدیل کردیا اور واضح طورپر جنگی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔تسلسل کے ساتھ جاری آپریشنوں میں خواتین اوربچوں کو اجتماعی طور پر سفاکیت کانشانہ بنارہی ہے۔

ترجمان نے کہاکہ بولان آپریشن سے قبل پنجگورکے علاقے گچک کو پاکستان فوج نے پوری طرح ایک کنسنٹریشن کیمپ میں تبدیل کردیا جہاں معمول کے آمدورفت کے لیے فوج سے اجازت لینا لازمی قرار دیا گیا اور مکینوں کی راشن بندی کرکے ان پر مقررہ حد سے زائد راشن کی خریداری پر پابندی عائد کی گئی۔

ترجمان بی این ایم نے کہا اجتماعی سزا بلوچ جہدکاروں کے خلاف پاکستان کی ناکامی اور بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے پاکستانی فوج ہمیشہ سے محاذ میں شکست کا بدلہ نہتے اور عام لوگوں سے اجتماعی سزا کی صورت میں لیتی آرہی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here