بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے بولان کے مختلف علاقوں میں فوجی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بلوچ نسل کشی کو نئی نہج پر لے جاررہا ہے۔ سال کے بارہ مہینوں میں بلوچستان کے طول وعرض میں فوج کشی جاری رہتی ہے۔ ان فوجی آپریشنوں میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ انھوں نے کہاکہ بولان کے حالیہ فوجی آپریشن میں درجنوں مرد، خواتین اور بچے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیے گئے ہیں۔ جن میں زرگل مری، حنیفہ مری، در خاتون مری، ماھسو سمالانی، گل بی بی سمالانی، سمو سمالانی، زر بخت سمالانی، بانی سمالانی، سمیدہ سمالانی، فریدہ سمالانی، راجی سمالانی اور چار سال سے لاپتہ رکھیہ سمالانی کی اہلیہ مھنا سمالانی اور بیٹا کلیم سمالانی شامل ہیں۔
انھوں نے کہاکہ اس فوج کشی کے دوران چار نومبر کو سنگان کے نزدیک سفّاری کے مقام پر ’محمد غوث مری‘ کی مسخ شدہ لاش ملی جو گذشتہ سال (2021) ستمبر سے پاکستانی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ تھے۔
‘ انھوں نے کہا کہ بولان آپریشن بلوچ قوم کے خلاف جاری اجتماعی سزا کا حصہ ہے پاکستانی فوج نے بلوچ وطن کو نازی طرز پر کنسنٹریشن کیمپ میں تبدیل کردیا اور واضح طورپر جنگی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔تسلسل کے ساتھ جاری آپریشنوں میں خواتین اوربچوں کو اجتماعی طور پر سفاکیت کانشانہ بنارہی ہے۔
ترجمان نے کہاکہ بولان آپریشن سے قبل پنجگورکے علاقے گچک کو پاکستان فوج نے پوری طرح ایک کنسنٹریشن کیمپ میں تبدیل کردیا جہاں معمول کے آمدورفت کے لیے فوج سے اجازت لینا لازمی قرار دیا گیا اور مکینوں کی راشن بندی کرکے ان پر مقررہ حد سے زائد راشن کی خریداری پر پابندی عائد کی گئی۔
ترجمان بی این ایم نے کہا اجتماعی سزا بلوچ جہدکاروں کے خلاف پاکستان کی ناکامی اور بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے پاکستانی فوج ہمیشہ سے محاذ میں شکست کا بدلہ نہتے اور عام لوگوں سے اجتماعی سزا کی صورت میں لیتی آرہی ہے۔