وائس فار بلوچ مسنگپرسنز کے سیکر ٹری جنرل اور لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی سمی دین بلوچ نے پاکستان کے شہر لاہور میں عاصمہ جہانگیر سال 2022کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر فاؤنڈیشن کا شکریہ انکی وجہ سے پہلی بار لاہور اور پنجاپ کے کسی ہوٹل میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے، میں یہاں بطور بلوچستان کی دْکھی ماؤں کی فریاد لیکر شامل ہوں اس سے قبل شاید بلوچوں کی آواز پنجاب کے کسی سرکل میں پہنچا بھی ہو البتہ ہم اپنی فریاد لیکر ہر در پر جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں جبری گمشدگیوں کیخلاف جو بل پیش ہوا تھا اس بل کی بازیابی لاپتہ افراد کے لواحقین، وکلا اور انسانی حقوق کی کارکنان کی محنت ہے البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس بل کی پیش ہونے کے بعد بھی کوئی عملدرآمد ممکن ہے کیوں کہ اس طرح کے کئی بل پہلے بھی پاس کرائے گئے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے کہا 2010میں ججز کمیشن کی رپورٹ کو سامنے لانے کا مطالبہ ہوا جس میں جبری گمشدگیوں پر حقائق شامل تھے لیکن اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا اور ججز کمیشن کے مطالبے کو حکومت کی جانب سے نظر انداز کیا گیا، اسی طرح 2012ئمیں چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری نے 19 ایف سی افسران کو شامل تفتیش کرکے 35 جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دیا لیکن اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کا حکم تھا تاہم اسے بھی نظر انداز کیا گیا، 2012میں ہی ڈی آئی جی آپریشن بلوچستان حامد شکیل نے عدالت میں جبری گمشدگیوں میں ایف سی کی ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا انھیں ایک متنازعہ حملے میں مارا گیا۔
سمی بلوچ کا مزید کہنا تھا 2010ئمیں عدالتی احکامات کے باوجود جبری لاپتہ سرکاری نوکری کرنے والوں کی تنخواہیں بحال نہیں ہوئیں، جبری گمشدگیاں جو اس ملک میں سب سے سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے اس پر قوانین تو بنائے گئے تاہم ان پر ہم نے کسی قسم کا عملدرآمد ہوتے نہیں دیکھا۔
سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دیگر بچے خود بیرون ممالک جب اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں اس دوران طویل سفر طے کرکے تعلیم کی حصول کے لئے پنجاب آنے والے بلوچ طلباکو انکے لباس کے بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے پنجاب بلوچ کے سیندک اور دیگر وسائل لیکر بلوچ ماؤں کو بدلے میں لاشیں فراہم کرتی ہے۔
سمی بلوچ خطاب کررہی تھی کہ اس دوران کانفرنس انتظامیہ نے سمی بلوچ کی گفتگو کو روکنے کی کوشش کی، سمی دین بلوچ کی بار بار گزارش پر بھی انھیں گفتگو کرنے نہیں دی گئی اور ان سے مائیک لے لیا گیا۔