روہنگیا مہاجرین کا طویل قیام بنگلہ دیش کے استحکام کو متاثر کر رہا ہے، حسینہ واجد

0
181

بنگلہ دیش کے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے پیر کو کہا کہ اپنے مصائب کے علاوہ ہمسایہ ملک میانمار سے آئے روہنگیا پناہ گزینوں کی طویل موجودگی بنگلہ دیش کی معیشت، ماحولیات، سلامتی، سماجی اور سیاسی استحکام پر سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے۔

وہ امریکہ اور بنگلہ دیش کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والے، علاقے کے 24 ممالک سے تعلق رکھنے والے فوجی حکام کے تین روزہ ‘انڈو پیسیفک آرمیز مینجمنٹ’ سیمینار کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔

خبر رساں ادارے ‘ایسو سی ایٹڈ پریس’ کے مطابق سیمینار میں شریک ممالک کی فوجیں آفات سے نمٹنے کے طریقہ کار، بین الاقوامی جرائم، سلامتی کے مسائل اور خواتین کو بااختیار بنانے جیسے امور پر تبادلہ خیال کر رہی ہیں جبکہ بنگلہ دیش اس فورم کو، میانمار سے تشدد کی وجہ سے بھاگ کر آئے روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلے کو اجاگر کر نے کی کوشش کر رہا ہے۔

بنگلادیش کے آرمی چیف جنرل ایس ایم شفیع الدین احمد نے بتایا کہ سیمینار کے شرکاء جن میں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان، انڈونیشیا، بھارت، چین اور ویتنام شامل ہیں ملک میں قائم بڑے روہنگیا پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کریں گے تاکہ وہ مہاجرین کی حالت زار کا خود مشاہدہ کرسکیں۔

فوجی رہنما کے مطابق شرکا کو کاکسس بازار ضلع کے کیمپوں میں لے جایا جارہا ہے تاکہ ان پر مہاجرین کے بحران کی سنگینی واضح کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ مہاجرین کی میانمار واپسی کیوں ضروری ہے۔

گزشتہ ماہ بنگلہ دیش میں سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے پانچ سال مکمل ہوئے ہیں۔ یہ مہاجرین میانمار کی فوج کی سخت پکڑ دھکڑ سے فرار ہوکر بنگلہ دیش پہنچے تھے۔ اس وقت بنگلہ دیش مجموعی طور پر 10 لاکھ سے زیادہ روہنگیا مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔

وزیراعظم حسینہ واجد نے کہا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کی ان کے وطن واپسی ہی اس بحران کا واحد حل ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ڈھاکہ ان مہاجرین کو واپس میانمار جانے پر مجبور نہیں کرے گا۔

خیال رہے کہ بنگلہ دیشی حکام نے چین کی ثالثی میں ہونے والے دو طرفہ معاہدے کے تحت مہاجرین کو واپس بھیجنے کی دو بار کی گئی کوششوں کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

روہنگیا مسلمان کہتے ہیں کہ بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریتی آبادی والے ان کے ملک میانمار میں حالات انتہائی خطرناک ہیں اور وہاں انہیں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here