افغانستان: اسکولز ایک بار پھر بند کرنے پر طالبات کا احتجاج

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

افغانستان کے صوبہ پکتیا میں چند روز قبل لڑکیوں کے لیے سکینڈری اسکول کھولے جانے کے باوجود ہفتے کو ایک بار پھر طالبات کو اسکولوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اسکولوں میں داخلے سے روکنے پر درجنوں طالبات نے گردیز میں احتجاجی ریلی نکالی۔

وائس آف امریکہ افغان سروس کے مطابق طالبات نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ لڑکیوں کے اسکول دوبارہ بند نہ کیے جائیں۔

صوبہ پکتیا کے شعبہ اطلاعات و نشریات کے ایک اہلکار مولوی خلقیار احمدزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اسکول بند نہیں کیے گئے۔ اُنہوں نے گردیز میں طالبات کے احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔

کئی طالبات کے والدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب ہفتے کو اُن کی بچیاں اسکول پہنچیں تو اُنہیں داخلے سے روک دیا گیا اور گھروں کو واپس جانے کی ہدایت کی گئی۔

افغان نشریاتی ادارے ‘طلوع’نیوز نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں درجنوں بچیوں کو گردیز میں ریلی نکالتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز پر پکتیا میں چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک لڑکیوں کے اسکول قبائلی عمائدین اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے بعد کھول دیے گئے تھے۔

اس سے قبل صرف چھٹی جماعت تک کی لڑکیاں ہی اسکول جا سکتی تھیں اور ساتویں سے بارہویں جماعت تک کی لڑکیوں کے اسکول بند تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایک طالبہ عابدہ نے بتایا کہ یہ ایک سال ان پر کیسے گزرا وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتیں۔ ایک ایک دن سال کی مانند گزرتا تھا، وہ بہت مشکل وقت تھا۔

عابدہ کے والد فضل الدین جلالزئی کا تعلق صوبہ پکتیا کے صدرمقام گردیز سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک تاجر ہیں۔ ان کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ بچوں کی پڑھائی میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔

ان کے بقول طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبات کے اسکولوں کی بندش یقیناً ایک درد ناک مسئلہ تھا۔ اس کو حل کرنے کے حوالے سے کافی کوششیں جاری تھیں۔

تعلیم کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فضل الدین جلالزئی نے مزید بتایا کہ انہوں نے ایسے بے شمار گھرانے دیکھے ہیں جنہیں تعلیم یافتہ خواتین نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کے مطابق اسکولوں کی بندش پر علاقے میں کافی بے چینی پائی جاتی تھی۔ لہذٰا اس معاملے کو ہر سطح پر اٹھایا گیا۔

فضل الدین جلالزئی کے مطابق عمائدین کے مطالبات میں حالیہ زلزلے اور سیلاب کے واقعات کے بعد شدت آئی کیوں کہ خواتین نرسوں اور لیڈی ڈاکٹروں کی کمی کے باعث زخمیوں کو دور دراز علاقوں میں منتقل کرنا پڑتا تھا جس کے باعث زیادہ اموات ہوئیں۔ اس لیے عوام نے لڑکیوں کے اسکولوں کے کھولے جانے کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کردیں۔

Share This Article
Leave a Comment