آزادی کے لیے اپنی جان سے بھی گزر سکتا ہوں | ڈاکٹر منان بلوچ

0
425

ایک اور لاش لٹکادی گٸی۔31 تاریخ کو بیلہ میں سرراہ اپنے قومی مقصد کی تکمیل کے سلسلے میں برسرپیکار بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ڈپٹی جزل رسول بخش بلوچ کی تشدد لاش لٹکا دی گٸ۔


ریاستی ادارے ایسے اقدامات سے ایک دہشت پیدا کرکے قومی آزادی کے جہدوجہد میں سرگرم پارٹیوں اور کارکنوں کو اس عظیم مقصد سے ہٹانا چاہتے ہیں۔جیسے حبیب نور کو انگریزوں نے ہندستان کی جہد آزادی کے دوران پانی میں ڈال کر بھسم کردیا اور ایک انقلابی کارکن نے اپنی شہادت پر کہا تھا کہ میرے خون کا ہر قطرہ انقلابی تصورات کو ابھارے گا۔اور جنگ کا اپنا ایک بہاٶ اور روانی ہوتا ہے۔جو آپ کو تمام خیال انگیرارادوں سے بہت دور لے جاتی ہے۔


عین اسی طرح شہید رسول بخش مینگل کی شہادت نے بلوچ آزادی کی کارواں کو مزید حوصلہ اور جذبہ عطا کیا۔
کیونکہ اس کارواں میں شامل لوگ اس حقیقت کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ دشمن کو شکست دینے اور سرے سے ختم کرنے کی جذبہ کی جہدوجہد میں سروں کی قربانیاں دی جاتی ہیں۔پسنی میں ایک جلسے کے دوران بلوچ جہد آزادی کے عظیم قاٸد شہید غلام محمد نے فلسطینی لیڈر شیخ احمد یاسین کا حوالہ دے کر کہا تھا "کہ ہوسکتا ہے کہ فلسطین میں دوسرے لوگوں کو اسرائيل کی دہشت اور دبی ہوٸی موت سے ڈر لگتا ہو لیکن مجھے ڈر نہیں لگتا۔کیونکہ میری موت میری قوم قوم کی بقا ہے”
آپ نے اپنی جوانی کو قومی آزادی کی جہدوجہد میں قربان کرکے بھگت سنگھ کی تاریخی الفاظ کی یاد دلادی۔
ہم اپنی جونیوں کو لوہان کی طرح انقلاب کی مقتل گاہ میں لاۓ ہیں۔


کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے۔سچائی کی تلاش اور حصول میں ازل سے اب تک ہر انسان اسی طرح تفخرانہ انداز میں قربانی ہوتا رہا ہے۔اس لیے تو سیزر نے کہا ہے کہ یہ روحوں کو ایجاد کرنے کے مترادف ہے۔
نواب خیر بخش مری نے اپنے ایک حالیہ انٹڑو میں فرمایا ہے کہ "زمین پر ہتهيار نہ پھینکنا اور نہ ہار قبول کرنا،
آزادی کے لیے لڑتے رہو۔”


ویت نام ایک عظیم انقلابی رہبر نگوین تروٸی نے سینے پر تشدد سہنے کے بعد ویت نام زندہ باد،ہوچی منھ زندہ باد کا نعرہ بلند کیا۔
رسول بخش بلوچ بھی سرزمین کی محبت میں ہر تشدد سہتے رہے۔لیکن جہدوجہد سے وابستگی کو برقرار رکھا۔
یہی وہ بلند حوصلہ ہے جو قوموں کی بقا کا ضامن ہے۔


انقلابی نظریہ پر کاربند جنگیں افراد کی قربانیوں سے ختم نہیں ہوتی ہیں۔بلکہ ان میں ایک تیزی پیدا ہوتی ہےاور وہ مزید حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی جانب گامزن رہتی ہیں۔


تشدد کا ہتهيار ریاست ہمیشہ اپنی قبضہ گیریت کو دوام دینے کے لیے استعمال کرتی ہے۔شہید رسول بخش بلوچ 1967-05۔29کو واجہ امیر بخش کے گھر نواب شاہ میں پیدا ہوۓ۔آب نے میٹرک تک تعلیم ہاٸی اسکول خضدار سے حاصل کی۔اس دوران کسی عہدے کا طمع کیے بغیر بی ایس او میں سرگرم رہے۔


لینن ازم مارکس ازم کا مطالعہ کیا۔ایف ایس سی ڈگری کالج خضدار سے کیا۔1988ء میں بی این ایم کے نام سے بلوچ قومی سیاست کے حوالے سے پلیٹ فارم تشکیل دی گٸی تو آپ خضدار،نال،اور قرب و جوار کے علاقوں میں پارٹی کو منظم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوۓ۔
کچھ عرصہ بینک میں ملازمت کی۔لیکن دوستوں کی خواہش پر اپنے گھر کو غربت کے عفریت میں چھوڑ کر سیاست کی پیچیدگیوں کو سلجھانے چڑگۓ۔


2003 میں جب شہید غلام محمد نے قومی آزادی کے حصول اور غیر پارلیمانی طرز سیاست کی بنیاد پر بی این ایم کی آرگناٸزنگ باڈی تشکیل دی تو شہید رسول بخش مینگل اس کا حصہ بن گۓ۔2004 کے کونسل سیشن میں باقاعدہ مرکز کے ممبر منعقد ہوۓ۔اس دوران آپ گرفتار بھی ہوۓ۔لیکن آپ کے پاۓ استقامت میں کوٸی لرزش نہیں آٸی۔


جب ڈکٹر اللہ نظر مارچ 2005ء کو اغواء ہوکر فورسز کے ہاتهوں غاٸب کٸے گٸے تو شہید رسول بخش مینگل نے اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ خضدر میں کہی مظاہرے کٸے اور ریلیاں نکالیں،جلسے منعقد کرانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی تاریخ میں 17 اکتوبر کو خضدار سے کراچی تک طویل لانگ مارچ کا اعلان کیا۔راستے میں کٹھن حالات سے دوچار رہے بقول ان کے ساتھیوں کے دوران سفر مالی بدحالی کی وجہ سے آخری دو دن بھوک میں سفر کیا۔لیکن اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ 15 اکتوبر کو کراچی پریس کلب پہنچ کر بھوک ہڑتال کیمپ میں شامل ہوگٸے۔2006ء کو جب چیرمین غلام محمد لیاری کراچی سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء کیے گٸے۔دوسرے جانب لالا منیر شہید بھی گرفتار ہوۓ تو کابينہ کی عدم موجودگی میں شہید رسول بخش نے بی این ایم کو سنبھال دیا۔


جولاٸی 2008ء کے کونسل سیشن میں بطور جونيئر سیکٹری منتخب ہوۓ۔کم وساٸلی کے باوجود بی این ایم کے کسی بھی علاقے میں منعقد ہونے والے پروگرام میں شرکت سے پہلو تہی نہیں کی۔


24اگست کے دن آپ بیلہ کو سے سکورٹی اداروں نےاغواء کیا اور 31 اگست کو آپ کی تشدد لاش بیلہ ہی میں ایک درخت پر لٹکادی گٸی۔درخت پر لٹکے آپ کے انقلابی تشدد شدہ جسم نے ویت نام،الجزاٸر کے بربریت کی یاد تازہ کردی۔بیٹے کی لاش وصول کرتے ہوۓ انقلابی کامریڈ شہید رسول بخش کی والدہ کے تاریخی الفاظ”میرے بیٹے نے بلوچ سرزمین کی آزادی کی جہدوجہد میں قربانی دے کر میری دی ہوٸی لوریوں اور دودھ کا پاس رکھا اگر اس جہدوجہد میں میرے تمام بیٹے قربان ہوجاٸیں تو میں فخر محسوس کروں گی۔”


دشمن نے تشدد کے ذریعے رسول بخش مینگل کو شہید کرکے مارنا چاہا مگر عظیم انقلابی ماں کے ان الفاظ نے ہزاروں رسول بخش پیدا کردیے۔اسے کہتے ہیں انقلاب۔
کبھی آزادی کی جنگ لڑنے والے کو
کمزور نہ جانو
وہ بغیر ہتھیار کے بھی لڑسکتا ہے
میرا یقین کرو
میں جو غلامی کی آگ میں جل رہا ہوں
آزادی کے لیے اپنی جان بھی گزرسکتا ہوں۔

***

نوٹ : بی این ایم کے شہید رہنما ڈاکٹر منان بلوچ کی یہ تحریر ” روزنامہ توار” میں 31اگست2010 کو چھپا تھا۔ ہم اسے اپنے قارئین کی دلچسپی و معلومات کے پیش نظر دوبارہ شائع کرنے کی جسارت کر رہے ہیں ، ادارہ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here