بلوچ تحریک اتحاد کے تناظر میں | ذاکر بلوچ

0
398

غربت ایک ایسی لعنت ہے جو اگر انقلاب کو جنم نہ دے سکے تو وہ دہشت گرد سے سماج کو ناسور بنادیتا ہے۔ اسی طرح اگر غربت کے باوجود سماج کی سیاسی تربیت کی جائے تو غربت دہشت گردی کو جنم دینے کے بجائے انقلاب کو ہی جنم دیگا۔

بلوچ بحیثیت غلام قوم اپنی بساط کے مطابق جدوجہد کررہی ہے۔بلوچ قومی جدہو جہدپرنس آغا کریم کی مزاحمت سے لیکر شیرو مری کی مزاحمت تک مختلف نشیب و فراز سے گزر کر موجودہ دور تک پہنچی ہے۔پرنس کریم کے دور سے شیرو مری کے دور کے جدوجہد کو ہم ناکامی اس لئے نہیں کہہ سکتے کیونکہ آج جو مزاحمت سائنسی بنیادوں پر رواں دواں ہے وہ انہی انسرجنسی کا تسلسل ہے۔

اکیسویں صدی میں شروع ہونے والی تحریک میں تین پارٹیاں اپنی بساط کے مطابق بر سر پیکار ہیں۔میرا سوال یہی ہے کہ مقصد ایک، سوچ ایک نظریہ ونیشنلزم ایک تو پھر اتحاد سے قاصر کیوں؟

سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ایک سنگل ایجنڈے پر تو اتحاد ہو سکتا ہے۔ایک مشترکہ چارٹر تو تشکیل دیا جاسکتا ہے؟ اسی چارٹر کو بنیاد بنا کر اتحاد قائم کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں کچھ نظر نہیں آرہا اگر کسی بھی پارٹی سے یہ سوال کرو تو یہی جواب آئیگا بات چیت چل رہاہے اتحاد ہوگا۔

میں یہ پوچھنا چاہتا ہو کہ یہ کیا ہورہا ہے؟کیا یہ قومی سیاست ہے۔؟قومی سیاست کی بنیاد قوم دوستی کی بنیاد پر ہوتاہے۔عوام اذیت میں مبتلا ہے،آئے روز جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشن اور دیگر ریاستی دہشتگردی نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے تو سیاسی رہنماؤں سے سوال ہے کہ آخر آپ کیا کررہے ہیں؟ وقت زوالی یا ممبران کو گمراہ کیا جارہا ہے؟ اس کا جواب تاریخ ضرور پوچھے گا اور تاریخ بے رحم ہوتی ہے۔

اتحاد ہی واحد ہتھیار ہے ہم روز سنتے ہیں ہر کوئی یہ بات کہتا ہے لیکن عملی اقدام لینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔کچھ تاریخ کے صفحات کو مدنظر رکھ کر عرض کرو کہ کل جن کا جھکاؤ حیربیار مری کی طرف تھا ان کی نظر میں اللہ نذر برا اور جو اللہ نذر کی طرف تھے ان کے لئے حیربیار مری برا۔ آخر یہ کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟یہی لوگ موقع پرست ہیں اور یہ موقع پرست کہیں بھی انفرادی مفاد ات دیکھ کر گھس جاتے ہیں۔یہ موقع پرست ہیں ان کو اگر خاموش نہ کیا گیا تو اتحاد کھبی بھی ممکن نہیں ہوسکتا البتہ آج جو سچ ہے وہ کل جھوٹ ہوسکتا ہے اور آج جو جھوٹ ہے وہ کل سچ ثابت ہوسکتا ہے۔

سیاست میں اختلافات اور تنقید سیاست کی خوبصورتی ہے لیکن سیاست میں موقع پرستی بدبو کی مانند ہے۔ہزار اختلافات ہوانکی آپس میں لیکن کم از کم سفارتی پروگراموں میں تو اتحاد ممکن ہے۔آج وہ وقت آگیا ہے کہ ہم یک مشت ہوجائیں اور اس مکار دشمن کو شکست دیں دے۔

اگر آج ممکن نہیں تو کھبی نہیں، ہمارا دشمن بہت مکار اور چالاک ہے جو اس خطے کے لئے ناسور ہے۔ دہشت گرد مذہبی جنونیت پیدا کرنے کی فیکٹری ہے۔اس ناسور کا خاتمہ صرف آزاد بلوچستان کے لئے نہیں بلکہ پورے خطے کے لئے خوش آئندہ عمل ہے۔ اپنی جدوجہد کو محکم کرنے کے لئے اور دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے اتحاد اشد ضروری ہے اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم ایک مشت ہوجائیں اور آزاد بلوچستان کیلئے راہ ہموار کریں۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here