یہ زمین زادے اپنی زمین کی حفاظت میں مصیبت کے ہر پہاڑ کا سامنا خندہ پیشانی سے کرتے ہیں۔ جب کسی بھی محاز پر کاروائی کیے لئے تیاری شروع ہو جاتی ہے تو اُس رات خوشی سے کسی سرمچار کو نیند نہیں آتی کہ کل ہمارا دشمن سے آمنا سامنا ہوگا کہ اُن کو یہ بتا دیں کہ یہ زمین ہماری نسلون کا ہے، اس زمین نے کئی بہادر سپوت جنم دیے ہیں جو اب بلوچ جہد آزادی میں مثالی کردار ہیں۔ ہر نوجوان ان کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں پڑھتا ہے اور لکھ کر دنیا کو اُن کے بارے بتاتا ہے۔
یہ زمین لا وارث نہیں ہے یہاں ریحان جیسے نوجوانون نے اپنے سینے پہ بارود باندھ کر اپنی مٹی کا فرض ادا کیا اور دشمن کے لیے شعلے کی طرح برس پڑے اپنی ہستی کو فنا کرکے اس سرزمین کے لیے امر ہوگئے۔
یہاں جنرل اسلم جیسے شیر سپوت نے اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کر کے دشمن پر فدا ہونے کے لئے تیار کیا اور بتایا کہ ‘اول و آخر’سرزمین۔
یہ زمین گواہ ہے کہ یہاں شہیک جیسے بہادروں نے زخمی حالت میں اپنا آخری پیغام دے کر فکری وابستگی کا علان کر دیا کہ یہ جہد ہمارے شہیدوں کا ہے اس جنگ کو آخر تک لے جانا ہے اس جنگ کو اپنا سمجھ کر ایمان داری سے آگے لے جانا ہے آگے یا آزادی یا شہادت لیکن جہد کو اپنے آنے والی نسلوں کے لیے مظبوط کرنا ہے۔
اس زمین نے کئی دلیر بچوں کو جنم دیا ہے
یہاں شاری جیسی بیٹیوں نے اپنے خاندان اور بچوں کو چھوڑ کر جہد کے لیے فدائین کا راستہ اپنایا شاری نے سمو ،میرو، ہیبو کو چھوڑ کر زمین کو ترجیح دی۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ڈاکٹر اللہ نزر جیسا لیڈر ملا ہے کہ وہ جہد ازادی کے ساتھ مستقل مزاجی سے بندھے ہوئے ہیں۔
بلوچ قوم کبھی اپنے وطن کے دفاع کی جنگ بند نہیں کریگا ، یہ میرا یقین ہے ، جس طرح ہزارون سالوں سے بلوچ قوم نے اپنے دفاع کی خاطر جنگین لڑی ہیں اسی طرح آنے والے وقتون میں لڑیگا۔
سال 2000 سے جس جنگ کا آغاز ہوا ہے ، اس جنگ نے ہزار ایسے بہادر اور نڈر سپاہی پیدا کئے ہیں ، جس میں نوجوان ، عورتیں اور بڑی عمر کے بزرگ سبھی شامل ہیں۔
بلوچ جہد کو سرفیس سیاست نے اس طرح زر خیز بنایا کہ ہر ذی شعور نوجوان جذبات کے بجائے شعوری طور پر اس جہد کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ جس جہد کو واجہ غلام محمد جیسے رہبر ملے وہ کیسے رک سکتی ہے جس جہد کو چیرمین زاہد،ذاکر ،کمبر چاکر جیسے نوجوان رہبر ملے اس جہد کو کوئی بھی طاقت کمزور نہیں کرسکتی۔
***