زندہ رہنے کیلئے سو سال ضروری نہیں بلکہ ایسی دیدہ دلیری ‘ کردار، جرات اورجسارت دکھائی جائے جو انسان کو ہزاروں سال تک زندہ رکھے۔
سقراط پر الزام لگا کہ وہ نوجوانوں سے کہتاہے کہ سچائی کیلئے نکلو علم تلاش کرو۔ یہ اس وقت کے یونائی اشرافیہ اور حکمرانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی تھی انہوں نے سقراط پر یونانی خداوں کی توہین کرنے اور نوجوانون کو گمراہ کرنے کے الزام لگائے اور اسے گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کیا۔ اس نے تمام الزامات قبول کرلئے، اس کے سامنے دو آپشن تھے ایک زہر کا پیالہ پینا دوسرا جلا وطنی لیکن حیران کن طورپر اس نے پہلے والے خطرناک آپشن کا انتخاب کیا اور زہر کا پیالہ پینے کی حامی بھرلی۔ عدالت میں موجود اس کے شاگردوں سمیت 46 دیگر لوگوں نے اس سے کہا کہ وہ جلا وطنی قبول کرے۔ اس نے بڑی راحت و اطمینان سے کہا کہ بھاگنے کا مطلب اپنے کہی ہوئی بات کو غلط ثابت کرنا ہے، کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں اسکے شاگردوں نے کہا بلکل ہم یہی چاہتے ہیں، اس نے کہا کہ سچ کیلئے جان دینا ہی مجھے ہمیشہ کیلئے زندہ رکھ سکتا ہے سو مجھے قبول ہے۔ آخری رات اس کے شاگردوں نے زندانی آفیسر کو اپنے ساتھ ملاکر سقراط کو جیل سے نکالنے کی تدبیر کی اور وہ سقراط کے پاس گئے منت سماجت کی اس نے کہا میرا فیصلہ اٹل ہے پھر اس کے شاگرد مایوس ہوکر جیل نما بنکر سے نکل گئے۔ صبح کو فیصلہ کے مطابق ایتھنز سے زہر لایا گیا اور سقراط کو باہر مجمع کے سامنے لاکر پیش کیا گیا اس نے نوش فرماکر اپنے شاگردوں کو ہمیشہ کیلئے سوگوار چھوڈ کر چلے گئے لیکن تاریخ کے اوراق میں آج بھی وہ امر ہے۔
یہ وہی سقراط ہے جسے ہم مغربی فلاسفی کے امجد کے طورپر جانتے ہیں۔ ہر وہ طالب علم جو تاریخ، سیاست اور فلاسفی پڑھے پہلے اسے سقراطی نظریہ ہی پڑھنا پڑتاہے۔ اسے Moral فلاسفئ اور اخلاقیات کا بھی جد امجد کہا جاتاہے۔اس سے ایک دلیل اور منتق ثابت ہوجاتی ہے کہ ظالم قابض کے خلاف اور مظلوم کے حق میں جان دینا اخلاقی سیاسی اور فلسفیانہ طورپر درست ہے۔
گزشتہ دنون کراچی میں چائنیز پروپیگنڈہ مشینری ( کنفیوشس ) انسٹیٹوٹ کے استاتذہ پر ایک حملہ ہوا، اور یہ حملہ پہلی بلوچ خاتون جنگجو سرمچار شاری بلوچ نے کیا تھا اور پھر سوشل میڈیا سے لیکر عالمی خبر ناموں میں یہ اہم ٹرینڈ بن گئی اور اب شاری بلوچ تاریخ میں واقعی لیجنڈ بن چکی۔ اب شاری ازم بلوچ مزاحمتئ تاریخ میں ایک نئی مثال اور ستون چکی ہے۔
اسٹریٹجیکلی بلوچ جنگ واقعی ایک اہم منزل کی طرف نکل رہی ہے اور اس کا سہرا جنرل کے کارواں کے دوستوں کو جاتاہے کہ انہون نے سخت وقت میں اہم فیصلے کیے بلوچ تحریک کی سمت تبدیل کی۔
جنگ کئی طرح کے ہوتے ہیں ان میں سے ایک وہ ہوتاہے جسے offensive یعنی ٹوٹ پڑھنا کہا جاتاہے اور دوسراdefensive یعنی دفاع کہلا تاہے اگر چہ جنگ میں کوئی اخلاقیات نہیں یہ صرف طاقت کے بل بوتے پر ہی لڑی جاتی ہے اور ہمیشہ دفاع کرنے والے پر کوئی بھی اخلاقی قوانیں لاگو نہیں ہوتے کیونکہ وہ اپنے محدود طاقت سے طاقت ور کو للکار کر کہتاہے کہ جارحیت بند کرو شاری نے صرف یہ حملہ ایک پیغام کے طور پر کیا تھا اور جس مقصد کیلے اس نے کیا تھا اس نے سو فیصد کامیابی حاصل کی اور کئی محققین نے بر ملا یہ کہا کہ چین دفاعی اور معاشی اشتراک کے معاملے نہ صرف پاکستان کے ساتھ ملا ہواہے بلکہ آنے والے سالوں میں چین جیونی اور پسنی میں اپنا نیول بیس قائم کرنا چاہتاہے’ اور چیں براہ راست بلوچستان کے جغرافیائی ‘
oceanography resourcefulness/political economy
سے فائدہ حاصل کرنا چاہ رہاہے ‘ اور چائنا بہت ہی خاموشی کے ساتھ یہ تمام کام بڑی چالاکی کے ساتھ کررہاہے ‘operational Reality
کے بَر خلاف کچھ لوگ درس دے رہیے ہیں کہ اس طرح کے عمل سے اجتناب کیا جائے، انہیں ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ بلوچستان نہ کسی ووٹ الیکشن اور عوامی مرضی سے پاکستان کے ساتھ شامل ہوا ہے بلکہ یہ تمام جبر سے ہوا ہے اور پاکستانی فوج نے 1947 سے لیکر آج تک فقط ظلم کیا ہے۔ کیا قلات ہر قبضہ کسی اخلاقیات کے تحت ہواتھا یا کہ جبر کےساتھ ‘ اسد مینگل سے لیکر آج تک بے حساب بلوچوں کے لاشیں کبھی نہیں ملیں، کیا یہ کسی اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کو ریپ کرنے والے کپٹن حماد آج بھی خوش و خرم ہے، نواب بگٹی کا قتل کس ethics کے تحت ہواتھا۔ سب سے بڑھ کر قبضہ اور پھر استحصال ہی بر خلاف اخلاقیات ہے۔ آج تک تاریخ نے ایک بات ہی بتاتی ہے کہ قبضہ گیر کو صرف اور صرف مسلح اور منظم طاقت سے ہی روکا جاسکتاہے۔محکوم کی تعمیری سوچ اس وقت تک سامنے نہیں آتا جب تک قابض اس پر حکمران ہے۔
جب آپ زیردست ہوں تو آپ پر طرح طرح کے الزام لگتے ہیں اس معاملے میں تاریخ کے دو ورژن ہوتے ہیں ایک قابض کا دوسرا محکوم کا جب قابض نکل کر چلا جائے پھر اسی وقت اس کا تاریخی ورژن مات کھا جاتاہے ۔ جب ک محکوم تاریخ بدلنے میں کامیاب ہوکر غلامی کا لبادہ اتارے تو تاریخ اس کی توصیف لکھنا شروع کرتاہے۔ مثلا 1947 سے پہلے بھگت سنگھ دھشت گرد تھا جب ہندوستان آزاد ہوا تو وہ ہیرو کے طورپر سامنے آگیا۔ چیئرمین ماو کی وجہ سے 5 کروڈ لوگ قتل ہوئے یا فاقوں سے مرے لیکن جب وہ کامیاب ہوا تو یہ تمام ریکارڈ منظر سے ہئ غائب ہوگئے۔ اسٹالن نے 30 لاکھ لوگوں کی جان لی لیکن روس میں آج بھی وہ مرد آہن کہلاتاہے۔ چچنیا میں پوٹن نے 15 لاکھ مسلمان قتل کئے لیکن وہ آج بھی روس کا ہیرو ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتاہے کہ اپنی تاریخ کو زندھ رکھنے کیلئے قوموں کو زندہ رہنا پڑتاہے اور تاریخ میں اپنا باب بنانے کیلئے اپنی قومی ریاست حاصل کرنا ضروی ہوجاتاہے تاکہ آپ اپنے ان لا تعداد عظیم کرداروں کو یاد رکھ سکیں جنہوں نے اپنے وطن سے قابض کو بھگانے کیلئے نہ اپنے سروں کی پرواہ کی نہ بچوں کی اور نہ اپنی قیمتی زندگیوں کی۔ اب شاری ایک نام نہیں بلکہ بلوچ مزاحمتی سیاست میں ایک سیاسی اصطلاح بن چکی ہے ،شارزم )Sharism۔
٭٭٭