نیویارک میں قائم کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے پاکستانی بینکوں کے لیے مستحکم آؤٹ لک کی پیش گوئی کی ہے اور ملک کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 3سے 4 فیصد کے درمیان رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔
عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے سابق وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی اور ان کے بعد اگست 2023 تک شہباز شریف کی بحیثیت نئے وزیراعظم تصدیق پر تبصرہ کرتے ہوئے موڈیز نے کہا کہ ایسے وقت میں کہ جب پاکستان بڑھتی ہوئی افراط زر، پھیلتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا شکار ہے، سیاسی ہلچل اس اتار چڑھاؤ کی عکاسی کرتی ہے جو پاکستان کے سیاسی ماحول کو متاثر کرتی ہے اور پالیسی کے تسلسل کے حوالے سے واضح غیر یقینی صورتحال کو جنم دیتی ہے۔
موڈیز کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ نئی حکومت اگلے انتخابات کے اعلان سے قبل اس عبوری مدت کے دوران عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام سے کیسے رجوع کرے گی، جس سے اس غیر یقینی صورتحال کو طول ملے گا کہ کیا پاکستان اپنی غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو تقویت دینے کے لیے آئی ایم ایف سے مالی اعانت حاصل کر سکے گا جو گر کر صرف دو ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے برابر رہ گئے ہیں۔
دریں اثنا موڈیز نے کہا کہ بینکوں کے مستحکم آؤٹ لک کو پھیلتی ہوئی معیشت اور ان کے مضبوط مالیات کی مدد حاصل ہے اور اس وجہ سے بینکنگ سیکٹر (بی 3 اسٹیبل) کے لیے ایک مستحکم آؤٹ لک برقرار رکھا۔
رواں مالی سال کے لیے موڈیز کی متوقع حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 12 فیصد سے زائد کریڈٹ گروتھ کے ساتھ 3 اور 4 فیصد کے درمیان اور 2023 کے مالی سال کے لیے 4 فیصد سے 5 فیصد کے درمیان رہے گی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی بینکس کامیابی کے ساتھ وبائی مرض کے اثرات سر محفوظ رہے، اگرچہ نان پرفارمنگ لونز زیادہ رہے لیکن مجموعی قرضوں کے تقریباً 9 فیصد پر وسیع پیمانے پر مستحکم رہے۔
اسی طرح موڈیز کے مطابق منافع میں اعتدال سے اضافہ ہوگا، اثاثوں پر منافع تقریباً ایک فیصد سے 1.1 فیصد رہے گا تاہم، سرمایہ کاری کے فوائد کم ہونے کا امکان ہے۔
موڈیز کے مطابق روس اور یوکرین فوجی تنازع تیل کی بلند قیمتوں کے ذریعے پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر دباؤ ڈالے گا جبکہ بڑھتی ہوئی افراط زر نجی شعبے کے اخراجات کو کمزور کر دے گی اور شرح سود میں تیزی سے اضافہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری پر بھی اثر ڈالے گا۔