بلوچستان جس نے اپنی عمر کا پیشتر حصہ بیرونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت میں گزارا۔ وہ چاہے آرین دور ہو، ہخشامنشی زمانہ ہو، یونانی کے خلاف خطے میں بسنے والوں کی مزاحمت ہو، ساسانیوں اور بلوچ جنگیں، عرب سکے کا زمانہ ہو، یا اس کے بعد انگریز اور حالیہ دور تک۔ یہ ساڑھے تین ہزار سالہ تاریخ خطے میں یورشوں کی گواہی دیتی ہے۔ مزاحمت کے ان ادوار میں جہاں مردوں نے جدوجہد کی ہیں وہاں عورتوں نے بھی گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں البتہ یہ الگ بات ہے کہ جب تاریخ نویسی شروع ہوئی تو وہ پدرسری سماج کا زمانہ تھا اسی لیے تاریخ میں ہم عورتوں کو ان کا اصل مقام دلانے سے قاصر رہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مبارک علی رقطراز ہے کہ جب عورتوں کو مردوں کی تاریخ سے خارج کردیا گیا تو معاشرے میں ان کی حیثیت کمتر ہوتی چلی گئی۔۱
اس کی سب سے اہم وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ ہے مدنی زندگی، جس میں انسان نے قدم رکھتے ہی گروہی دشمنیوں کا سفرشروع کیا۔ چوں کہ مدنی نے زندگی نے پدرسری نظام کو جنم دیا تھا لہذا اس نے عورت کے اختیارات کو کم کرنے کی جانب زیادہ توجہ صرف کیں اور عورت سماج میں مرد کے مقابلے کمزور ہوتی چلی گئی۔ اس دور میں ہر حاکم یا گروہ کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی ریاست کو وسیع و عریض کرے لہذا اس انسانی حرص کے لیے جنگیں ناگزیر ہوگئی۔ جنگوں میں جسمانی قوت کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے یہ بات بھی یقینی ہے کہ مرد عورت کے مقابلے میں جسمانی حوالے سے کچھ زیادہ قوت رکھتی ہے اور اس طاقت کو مزید توانا کرنے کے لیے مردوں کو زیادہ مواقع ملتے گئے۔ سماج پہ مردوں کی اجارہ داری تھی لہذا ان کے قصے،کہانیوں میں بھی مرد کو طاقت کے دیوتا کے روپ میں بیان کیا جاتا تھا جس کے اثرات سماج پہ پڑتے گئے اور یوں ان کے رویوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی چلی گئیں کہ مرد ہی بہترین محافظ ثابت ہوسکتا ہے۔جیسے یونان میں عورت کو نامکمل انسان اورقدیم چین میں گناہگارتصور کیا جاتا تھا۔انہی پروپیگنڈوں کے باعث عورت سماج میں مقید ہوتی چلی گئی۔اس کے ساتھ اس دور اور بعد کے زمانوں میں بھی عورتوں نے اپنے کردار کی بدولت تاریخ کی دھارا بدلنے میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے، جیسے یونان کے خلاف ایرانی دیوی اریٹمیزکا کردار،اس کی بہادری کو دیکھتے ہوئے ایرانی شہنشاہ خشایارشا اول نے کہا تھا کہ ایرانی عورتیں مرد بن گئے اور مرد عورتیں بن گئی ہیں۔۲
اس کے علاوہ ویتنام میں ترنگ بہنوں کی بہادری، چین میں فوجی کی کمانڈر عورتیں، مصر میں عورتوں کی حکمرانی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور میں بھی بعض خطوں میں استعبداد کو مرتبے سے تشبیہ دینے کے رسوم قائم تھے۔
آتے ہیں بلوچ سماج میں عورت کے کارناموں کی جانب اس ضمن میں ماضی اور حال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔بلوچ سماج میں اس ہستی نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دی ہیں تاریخ نے اس پہ یہ جبر کیا کہ ان کی داستانوں کو محفوظ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور اگر تاریخ نویسی کی ابتداء سے اس موضوع پہ کام ہوتا تو یہ بات افشا ہوتی کہ انسانی تاریخ تو دراصل عورتوں کی تاریخ ہے۔
بلوچ عورتوں کا دنیا کو جھنجوڑ نے بلوچ مزاحمت کو ایک نیا رخ دینے کی جدوجہد ہنوز جاری ہے۔ گزشتہ چار، پانچ صدیوں کی تاریخ سے لے کر حالیہ دور تک بلوچ عورت مزاحمت کی علامت بنی ہے۔ ماضی میں رندوں میں حانی، بانڑی، گراہناز، ریاست قلات کی مائی بیبو، بی بی زینب، مغربی بلوچستان میں گل بی بی، مراد بی بی، بی بی سیرت جن کے کارناموں کا تذکرہ ہمیں شاذ ونادر ہی تاریخی دستاویزات میں ملتی ہیں ۔ مورخین کی عدمِ توجہی کی باعث اگرچہ ان کے اصل کارنامے نظروں سے غائب ہیں لیکن اس کے باجود بھی سماج میں یہ مزاحمت کی علامات تصور کی جاتی ہیں اور حالیہ دور میں بانک کریمہ، بی بی خیرالنسا، اماں گل خاتون، عرض بی بی، بانک عابدہ، اماں یاسمین، بانک فرزانہ، ڈاکٹر ماہ رنگ، بانک سیما، بانک ذکیہ سمیت ہزاروں خواتین ہیں جو قومی بقا کے لیے مزاحمت کو رنگِ حنا بخشنے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔ حالانکہ اس زمانے میں جس دشمن کے خلاف مزاحمت جاری ہے اس کے ظلم کی داستانوں کا کسی اور قوت سے کسی سے تقابلی جائزہ ہی ممکن نہیں اس نے تو ماضی کے مظالم کی تمام حدیں پارکررکھی ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچ عورت جس سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔اسی لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موجود دور جہاں خواتین کی جدوجہد روز نت نئے کردار کے ساتھ اس باب میں اضافہ کررہی ہے۔۳
حالیہ تحریک جو تو گزشتہ دو عشروں سے جاری ہے اس میں بلوچ خواتین بلوچ قومی بقا کے لیے مسلسل مزاحمت کرتی چلی آرہی ہے وہ چاہے تین ہزار کلومیٹر تاریخی پیدل لانگ مارچ ہو یا موسموں میں تمیز کیے بغیر ان کی مستقل مزاجی، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس میں عورت سماج میں حقیقی رہنما کی روپ میں ظاہر ہوئی ہے جو کبھی بانک کریمہ کی شکل میں سامنے آتی ہے، کبھی فرزانہ و سیما، کبھی سمی و مہلب، کبھی قوم کو حوصلہ دیتی اماں یاسمین و اماں گل خاتون کبھی حسیبہ و رژن تو کبھی ڈاکٹر ماہ رنگ، کبھی بی بی خیرالنسا، تو کبھی انہیں بی بی زامر بگٹی کی روپ میں دیکھتے ہیں۔
حالیہ بلوچ تحریک میں عورت کا جو کردار ہم دیکھ رہے ہیں تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ بلوچ سماج میں عورت نے ہر دور میں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے گراں قدر کارنامے سرانجام دی ہیں البتہ حالیہ دور سے ہم خود چوں کہ گزررہے ہیں اس لیے ان تمام حالات و حقائق کے چشم دید گواہ ہیں لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ سماج میں حالیہ دور میں جو قربانیاں عورت نے دے رہی ہیں، معلوم بلوچ تاریخ میں شاید اس کی مثال ناپید ہو جہاں اس ہستی نے جانی و مالی ہر قسم کی قربانی دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بلوچ خواتین کی حریت کے اسی جذبے کی وجہ سے بلوچ تحریک دنیا کی توجہ کا مرکز بن رہاہے اور بلوچ تحریک نے عالمی سطح پہ جو مقام حاصل کیاہے اس میں یقیناً بلوچ عورت کی فہم و فراست کا بڑا عمل دخل ہے۔۴
موجودہ تحریک میں عورت کے کارنامے جو منظر عام پہ آرہے ہیں اس میں ان کی منظم جدوجہد یعنی کہہ سکتے ہیں سیاسی عمل میں شمولیت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اس کے علاوہ سوشل میڈیا نے بھی عورت کی مزاحمتی کردار کو اجاگر میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی توسط سے دنیا بلوچ عورت کی مزاحمتی کردار سے واقف ہورہی ہے۔
حالانکہ کچھ عرصہ قبل بلوچ سماج میں ایک سوچ یہ بھی پائی جاتی تھی جسے ڈاکٹر شاہ مری صاحب نے یوں تحریر کیا ہے کہ عورتوں کی حمایت بلوچ کے ہاں ابھی تک بالکل کتابی، ناقابل عمل اور ناقابل فہم سمجھی جاتی رہی ہے۔پڑھے لکھے دانشور بھی ایسے افراد کو سستی شہرت کا خواہش مند کہتے رہے ہیں۔ ۵
تمام مفروضات کو رد ثابت کرکے حالیہ تحریک میں عور ت اپنے کردار کی وجہ سے سماج کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوچکی ہے کہ قومی بقا کے لیے فرائض مساویانہ بنیاد پہ تقسیم ہونی چاہیے کیوں پاکستان کا بلوچستان پہ جبری قبضے کے بعد موجودہ تحریک کو چھوڑ کر جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ہیں ان میں خواتین کا کردار پسِ پردہ چلی گئی یایوں کہے تو بے جا نہ ہوگا کہ دانستہ طور پر خواتین کا سیاسی استحصال ہوتا رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ غیر منظم اندازِ جدوجہد ہے جہاں تنظیمی اور جماعتی طریقہ کارنظروں سے اوجھل ہیں تنظیموں اور جماعتوں کے بنا کوئی بھی جدوجہد سماج کی اس نوعیت کو ظاہر کرتی ہے جہاں سماج سیاسی پسماندگی کی انتہاء کو چھورہی ہو۔حالیہ تحریک آزادی میں خواتین کاجو مزاحمتی انداز ہم دیکھ رہے ہیں میں سمجھتا ہوں اس کا سہرا اس سیاسی ثقافت کو جاتا ہے جس کی بنیاد بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے 2002ء میں رکھی اور مختصر مدت کے بعد ہم بانک کریمہ بلوچ کو مرکزی ٹیم کا حصہ بنتے دیکھتے ہیں جس نے آگے چل پوری تنظیم کی رہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دیا جس سے آنے والی خواتین کے لیے راستہ ہموار ہوتا گیا اور یوں بانک مروارید بانک کریمہ کی شبیہ لیکر سامنے آئی۔
سماج کی تعمیر و ترقی، قومی بقا ء اور شناخت کے لیے بلوچ خواتین جس انداز میں جدوجہد کررہی ہیں اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچ تحریک دراصل عورتوں کی مزاحمت کی وجہ سے اس مقام تک پہنچ چکی ہے اور تاریکیوں کا خاتمہ بھی انہی کی جدوجہد سے ممکن ہے۔
حوالہ جات
1۔نسوانیت ختم کرنے والی عورتوں کا تاریخ میں نام۔۔۔۔ڈاکٹر مبارک علی۔۔۔اردو انڈیپینڈنٹ۔۔۔ 23مئی 2019
2۔ گلوں میں رنگ بھرنے والی ایرانی عورتیں۔۔۔ڈاکٹرمبارک علی۔۔۔اردوانڈیپینڈنٹ۔۔۔11جولائی 2019
3۔ سماج اورعورت۔۔۔ڈاکٹرجلال بلوچ۔۔۔اسٹینڈرڈ پبلکشن ہاؤس۔۔۔جولائی 2021۔۔۔ص۔۔۔64
4۔ سماج اور عورت۔۔۔ڈاکٹرجلال بلوچ۔۔۔اسٹینڈرڈ پبلکشن ہاؤس۔۔۔جولائی 2021۔۔۔ص۔۔۔14
5۔ عورتوں کی تحریک۔۔۔۔ڈاکٹر شاہ محمد مری۔۔۔۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز۔۔۔2015۔۔.ص۔۔۔95
٭٭٭