افغانستان کے طالبان حکمران نے ملک چھوڑنے اور بیرون ملک جانے والے درجنوں شہریوں کو گرفتار کرلیا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ درجنوں افراد کو غیر قانونی طور پر جہاز کے ذریعے افغانستان چھوڑنے سے روک دیا گیا، جن میں کئی خواتین بھی شامل ہیں اور ان خواتین کو اس وقت تک حراست میں رکھا جائے گا جب تک ان کا کوئی مرد رشتے دار آکر انہیں لے کر نہیں جاتا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں افغانستان امریکی اتحادی فورسز کے اچانک جلدبازی میں انخلا اور طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں افغان شہری انخلائی پروازوں کے ذریعے کابل سے فرار ہوگئے تھے۔
چند ممالک اور عالمی این جی اوز اس وقت سے بے قاعدہ چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے افغان شہریوں کو وہاں سے نکال رہی ہیں لیکن طالبان حکام بھی اس سلسلے کو روکنے کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ چند لوگوں نے شمالی شہر مزار شریف سے ایک پرواز کے ذریعے ملک چھوڑنے کی کوشش کی۔
انہوں نے بتایا کہ 40 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جو غیر قانونی طور پر ایک جہاز کے ذریعے بیرون ملک جانا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگوں کو رہا کردیا گیا ہے، تاہم چند خواتین حراست میں ہیں کیونکہ ان کے مرد رشتے دار اب ان کو لینے نہیں آتے۔
انہوں نے اس بات کی فوری طور پر وضاحت نہیں کی کہ پرواز کا انتظام کس نے کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق غیر ملکی فورسز یا امریکی حمایت یافتہ سابقہ حکومت سے اپنے تعلقات کی وجہ سے طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے ہزاروں افغان شہری اب بھی ملک چھوڑنے کے لیے بے چین ہیں۔
طالبان حکام کا اصرار ہے کہ کوئی بھی شہری جو صحیح سفری دستاویزات اور اس ملک کا ویزہ رکھتا ہو جہاں وہ جانا چاہتا ہے وہ ملک چھوڑ سکتا ہے، لیکن ایسے ملک میں جہاں صرف چند سفارت خانے کام کر رہے ہوں تو وہاں پیپرورک مکمل کرنا انتہائی دشوار ہے۔
افغانستان کی نئی حکومت نے ہنر مند اور تربیت یافتہ افغان شہریوں سے ملک میں رہنے اور ملک کی تعمیر نو میں تعاون کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔
طالبان اپنے 1996 سے 2001 تک کے پہلے سخت دور حکومت کے مقابلے میں قدرے نرم طرز حکمرانی کے وعدوں کے باوجود خواتین پر کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
خواتین کو طویل سفر سے روک دیا گیا ہے جب تک ان کے ساتھ ان کا کوئی قریبی مرد رشتے دار ان کے ساتھ نہ ہو اور خواتین کو کئی سرکاری شعبوں میں کام پر واپس آنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں خواتین سماجی کارکنوں نے کابل اور دیگر شہروں میں مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں لیکن ریلیوں کو بھی عام طور پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے منتشر کردیا جاتا ہے۔