شکیل الرحمان کی گرفتاری میڈیا کو حکومتی تنبیہ ہے، صحافتی حلقے

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

امریکی ریاست نیویارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس’ نے جیو گروپ کے مالک اور روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر اِن چیف میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

پیرس میں قائم ‘رپورٹرز ود آو¿ٹ بارڈر’ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ پاکستان کے صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے مختلف دھڑوں اور ایڈیٹرز کی تنظیم نے بھی میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔

پاکستان کے صحافتی حلقوں میں یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری سے پاکستانی میڈیا کو حکومت کے خلاف تنقید سے باز رہنے کا پیغام دیا گیا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو آزادی صحافت پر پابندی قرار نہیں دے رہی۔

وائس آف امریکاسے گفتگو کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کسی خبر کے حوالے سے نہیں ہے۔ البتہ یہ دبائو ڈالنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ یہ 34 سالہ پرانا کیس ہے۔ اسے جس طرح بنایا گیا ہے اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہو ئے سلیم بخاری نے کہا کہ نیب کے ساتھ میر شکیل الرحمان اور جنگ گروپ کی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نیب کے چیئرمین کی مبینہ ویڈیو اسکینڈل کو جس طرح سے جیو نے چلایا تھا اس وقت سے ان کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ نیب نے انہیں بلایا کاغذات کی تصدیق کے لیے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

سلیم بخاری کے بقول میر شکیل الرحمن کی گرفتاری انتقامی کارروائی کا نتیجہ لگتی ہے۔ جس دن ا±نہیں ریمانڈ کے لیے لیجایا گیا، ا±سی دن ایک من پسند میڈیا گروپ کے ذریعے ان کی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تصویر جاری کرا دی گئی۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے سکریٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نیب کی طرف سے حکومت کے مخالفین کو دبانے کا سلسلہ سیاستدانوں سے ہوتا ہوا اب صحافیوں تک آن پہنچا ہے۔ ان کے مطابق صحافیوں سمیت کوئی بھی فرد یا ادارہ احتساب سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے لیکن متعصبانہ طور پر، صرف حکومت کی خامیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو، بنا کسی ٹھوس ثبوت کے، احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر دینا مناسب نہیں۔ ان کے بقول تحقیقات شروع ہونے سے پہلے ہی میر شکیل کی گرفتاری نے احتسابی عمل کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ ان کے نزدیک نیب اپنی افادیت کھو چکا ہے اس لیے اس ادارے کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا شعبہ اس وقت بہت مشکل دور سے گزر رہا ہے،”اس سے پہلے ڈان گروپ کو بھی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہماری حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کو ایک مہذب اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کے لیے میڈیا کی تنقید کا برا نہیں منایا جانا چاہیے بلکہ اس تنقید کو حکومتی غلطیوں کی اصلاح کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔“ حارث خلیق نے مطالبہ کیا کہ میڈیا کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو بند کیا جائے اور میر شکیل الرحمن کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔“

ایک اور سوال کے جواب میں حارث خلیق کا کہنا تھا کہ میڈیا اپنے آپ کو حق اور سچ کا ترجمان کہتا ہے اس لیے اس پر اصولوں کی پاسداری کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کے بقول صحافت میں جو اصول توڑتا ہے اس سے باز پرس ضرور ہونی چاہییے لیکن یہ احتسابی سلسلہ متعصبانہ، غیر شفاف، اور غیر منصفانہ نہیں ہونا چاہیے،”اس مشکل دور میں بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ ایک طرف میڈیا مالکان سر جوڑ کر بیٹھیں اور فوری طور پر اپنے کارکنوں کی شکایات کا ازالہ کریں دوسری طرف میڈیا تنظیمیں اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لیں اسی طرح میڈیا کا کیس مضبوط ہو گا اور ان کی آواز میں وزن آئے گا۔ “

پاکستان کے ممتاز صحافی اورسینئر تجزیہ کار سلیم بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میر شکیل الرحمن کی گرفتاری بہت افسوسناک اقدام ہے۔ ان کے بقول اگرچہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کھلم کھلا میر شکیل کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ تازہ پیش رفت چیئرمین نیب کی جنگ گروپ سے ذاتی مخاصمت کا نتیجہ لگتی ہے کیونکہ ویریفیکیشن کے دوران کسی فرد کی گرفتاری ایک تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔

سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ میڈیا اور حکومت کے مابین کشیدگی کا یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہنے کا امکان ہے اور آنے والے دنوں میں ایسے اور واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں، ”حکومت اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، معیشت سنبھل نہیں رہی، گوورننس کا برا حال ہے، ایسے میں تنقید کرنے والوں کی ہی شامت آنی ہے۔ “

ایک سوال کے جواب میں سلیم بخاری نے بتایا کہ میڈیا احتساب سے بالاتر نہیں ہے لیکن صرف مخصوص گروپ کو نشانہ بنانا اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دینا غلط ہے، ”ماضی میں بھی میڈیا کو اۤزمائشوں کا سامنا رہا ہے، لیکن ماضی میں حکومتی کارروائیاں کسی قاعدے اور قانون کے تحت ہوتی تھیں اب تو صورت حال بہت ہی تشویش ناک ہے۔“

Share This Article
Leave a Comment