سوڈان کی فوج نے کہا ہے کہ ایک نئی حکومت کی تشکیل اب ناگزیر اور’قریب تر‘ہے۔سوڈانی فوج نے گذشتہ ہفتے اقتدار پرمکمل قبضہ کرلیا تھا اوروزیراعظم کو کسی جواز کے بغیراچانک معزول کردیا تھا۔اس اقدام کی بین الاقوامی سطح پر مذمت اور ملک میں اس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں۔
25 اکتوبر کوجنرل عبدالفتاح البرہان نے وزیراعظم عبداللہ حمدوک کے زیرقیادت حکومت کو تحلیل کردیا تھا۔انھوں نے سویلین قیادت کو حراست میں لینے کا حکم دیا تھااور ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا۔اس کے بعد مقامی اور بین الاقوامی ثالثوں نے دونوں فریقوں کے درمیان سمجھوتے پر زوردیا ہے۔
سوڈان ٹی وی نے جنرل البرہان کے میڈیا طاہرابوحجہ کے حوالے سے کہا کہ ”ہم قومی مفاد کی تکمیل کے لیے تمام اندرونی اور بیرونی اقدامات پرغور کر رہے ہیں۔“انھوں نے کہا کہ ”نئی حکومت کی تشکیل اب بالکل قریب ہے۔“
سوڈان میں اگست 2019 سے ایک مشترکہ سویلین فوجی کونسل نظم ونسق چلا رہی تھی لیکن جنرل البرہان نے اقتدار میں بالادست شراکت کے باوجود اس حکومت کو چلتا کیا ہے۔فوج اور شہری قیادت کے درمیان گہری پھوٹ اور طویل عرصے سے جاری کشیدگی نے سوڈان میں جمہوریت کی جانب منتقلی کے سفر کو بھی متاثر کیا ہے۔
گذشتہ ہفتے فوجی بغاوت کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پرمظاہرے شروع ہوگئے تھے۔سکیورٹی فورسز نے اس احتجاجی تحریک پرقابو پانے کے لیے مہلک کریک ڈاؤن کیا ہے اور اس کے نتیجے میں دس سے زیادہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں۔
عالمی طاقتوں نے سوڈان میں جلد سے جلد سویلین حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ امریکا نے سوڈان کو مہیا کی جانے والی مالی امداد روک لی ہے جس سے سنگین معاشی بحران میں گھرے ہوئے ملک کوسخت دھچکا لگاہے۔
مغربی ممالک اور سفارت کاروں نے وزیراعظم عبداللہ حمدوک کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسی عرب طاقتوں نے اقتدار کی سویلین قیادت کو منتقلی پر زوردیا ہے۔
معزول صدرعمرالبشیر کے تین دہائیوں پر محیط طویل دورحکومت میں خدمات انجام دینے والے کہنہ مشق جنرل عبدالفتاح البرہان کا بالاصرار کہنا ہے کہ”فوج کا اقتدارپر قبضہ ’بغاوت‘نہیں بلکہ جمہوریت کی جانب منتقلی کے راستے کو درست کرنیکا اقدام ہے۔“مگر انھوں نے اس کے بعد ایک اور نئی سویلین حکومت ہی بنانے کا عہد کیا ہے۔
دریں اثناء خرطوم کے مختلف علاقوں میں مظاہرین نے جمعرات کو فوجی جنتا کے خلاف چھوٹی بڑی احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں اور فوجی حکمرانی کے خلاف نعرے بازی کی ہے۔وہ ”فوجی حکمرانی“ مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔