سوڈان میں فوجی حکومت کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا اور ان مظاہروں پر حکومتی فورسز کی فائرنگ سے کم از کم 3 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق خرطوم میں سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا کیونکہ مظاہرین نے شہر کے بیچوں بیچ دھرنے کا منصوبے بنایا تھا۔
سوڈانی ڈاکٹرز کی سینٹرل کمیٹی کا کہنا ہے کہ دارالحکومت خرطوم کے جڑواں شہر اُمدرمان میں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے جبکہ 38 افراد زخمی ہو گئے۔
امُدرمان میں عینی شاہدین نے بتایا کہ انہیں گولیوں کی آواز سنائی اور خون میں لت پت زخمیوں کو ہسپتال لے جاتے ہوئے دیکھا۔
تاہم سوڈانی پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایک پولیس اہلکار گولی لگنے سے زخمی ہو گیا۔
یہ مظاہرے اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل عبدالفتح البرہان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں جنہوں نے پیر کو وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک کو اقتدار سے بے دخل کر کے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔
مظاہرین نے سوڈان کے جھنڈے کے اٹھائے ہوئے تھے اور ’ہمیں فوجی اقتدار قبول نہیں‘ اور ’یہ ہمارا ملک ہے اور ہماری حکومت عوامی ہے‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
اس کے علاوہ ملک کے شیگر شہروں میں بھی فوجی اقتدار کے خلاف مظاہرے کیے گئے جبکہ خرطوم میں ہزاروں کی تعداد میں عوام نے مظاہرہ کیا۔
دوسری جانب امریکا اور ورلڈ بینک نے سوڈان کو امداد روک دی ہیں جس سے سوڈان کا معاشی بحران مزید شدید ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ ملک کی ایک تہائی آبادی کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔
جہاں ایک طرف مغربی ممالک نے فوجی حکومت کو ماننے سے انکار کردیا ہے وہیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر نے ملک میں استحکام کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ سوڈان میں تمام فریقین مذاکرات کریں اور آگے کا راستہ متعین کریں۔
ادھر برطرف حکومت کی کابینہ کے اراکین نے مظاہرین کے احتجاج کی حمایت کی اور فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج اس خام خیالی میں نہ رہے کہ ہم اقتدار میں ان کا ساتھ دیں گے۔
خرطوم کے مرکزی علاقوں میں بڑی تعداد میں فوجی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں جبکہ ایئرپورٹ اور وزارت دفاع کے دفتر کی جانب سے جانے والے راستے بند کردیے گئے ہیں۔
گزشتہ مظاہروں کے برعکس اس مرتبہ عوام نے وزیراعظم عبداللہ ہمدوک کی تصاویر اٹھائی ہوئی تھیں اور وہ معاشی بحران کے باوجود عوام میں یکساں مقبول ہیں۔
یاد رہے کہ چند دن قبل فوجی سربراہ نے برہان کی عبوری حکومت کو تحلیل اور وزیر اعظم سمیت متعدد سرکاری عہدیداروں اور سیاسی رہنماؤں کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔
امریکا اور مغربی ممالک نے اس اقدام کی مذمت کی تھی اور مغربی ممالک کے دباؤ پر فوج نے عبداللہ حمدوک کی کو رہا کر کے گھر واپسی کی اجازت دے دی تھی۔