سوڈان بغاوت تشویشناک ہے، ہمیں معزول وزیر اعظم سے متعلق کچھ علم نہیں، امریکا

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

سوڈان کے دارلحکومت خرطوم میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں فوجی بغاوت کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ملک کا نظم ونسق چلانے کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ سول اور فوجی کونسل کو امریکہ کی طرف سے دی جانے والی 700 ملین ڈالر کی امداد بھی روک دی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ”سویلین حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی اطلاعات پر تشویش ہے اس لیے جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے ہر اقدام کی امریکہ مذمت کرتا ہے۔” سفارت خانے کے مطابق معزول وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کے متعلق کسی قسم کی اطلاع نہیں کہ انہیں کہاں اور کس حال میں رکھا جا رہا ہے۔

ادھر افریقی یونین کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بھی حراست میں لیے گئے تمام افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کئی پارٹی رہنما اور حکومتی عہدے داروں کو بھی حراست میں لینے کی اطلاعات ہیں جب کہ دارالحکومت خرطوم میں انٹر نیٹ سروس بھی متاثر ہوئی ہے۔ مقامی صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے مطابق سوڈان کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

سوڈان میں ٹریڈ یونینز کی جانب سے پیر کو عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکلیں اور فوجی بغاوت کو ناکام بنائیں۔

واضح رہے کہ سوڈان طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے سابق صدر عمر البشیر کا 2019 میں تختہ اُلٹنے کے بعد سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس دوران فوج نے ماہر معیشت اور سفارت کار عبداللہ حمدوک کو عبوری وزیرِ اعظم نامزد کرنے کی حمایت کی تھی۔

عمر البشیر کو سوڈان میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا جس کی وجہ سے اُن کے حامی فوجی افسران اور سول حکومت کے تعلقات میں کافی عرصے سے سرد مہری پائی جاتی تھی۔

سوڈان میں آئندہ برس کے اختتام پر نئے انتخابات ہونے والے ہیں، تاہم آئین کے مطابق عبداللہ حمدوک کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔

البتہ فوج کے اندر موجود عمر البشیر کے حامی دھڑے کی جانب سے وزیرِ اعظم عبداللہ حمدوک کو مسلسل مزاحمت کا سامنا تھا۔

گذشتہ ماہ 21 ستمبر کو بھی سوڈان میں اس وقت فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی تھی جب درجنوں فوجی اہل کاروں نے ایک اہم پل پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم یہ کوشش ناکام بنا کر کئی فوجیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

گذشتہ ہفتے ہزاروں مظاہرین نے ملک میں ممکنہ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ مظاہرین نے حکومت کی حمایت میں نعرے بازی بھی کی تھی۔

Share This Article
Leave a Comment