طالبان کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ کابل میں ایسے گھر جن کے رہائشی افغانستان چھوڑ کر جا چکے ہیں انھیں کرائے پر دے دیا جائے گیا، اور اس سے اکٹھی ہونے والی رقم سینٹرل بینک میں جمع کروا دی جائے گی۔
طالبان کی جانب سے یہ اعلان 29 ستمبر کو اپنے عربی زبان والے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کیا گیا ہے اور یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں معاشی بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔
اس اعلامیے کے مطابق جو لوگ ‘مغربی ممالک فرار ہو گئے ہیں ‘ ان کے گھروں کو کرائے پر دے دینا چاہیے جب تک کہ وہ افغانستان واپس نہ آ جائیں۔
اس اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کرائے سینٹرل بینک میں جمع کروائے جائیں گے لیکن اس سے آنے والا منافع ان گھروں کے مالکان کو اس وقت دیا جائے گا جب وہ اپنے گھروں میں واپس آئیں گے۔
طالبان نے جب اگست میں کابل کا کنٹرول سنبھالا تو ملک سے ہزاروں افراد نے انخلا کے لیے راستے تلاش کرنا شروع کیے۔ اس انخلا کے دوران صرف امریکہ اور اتحادی فوجوں کی جانب سے ایک لاکھ سے زیادہ افغانوں کا انخلا ممکن ہو سکا۔
اس قبضے کے بعد سے مغربی ممالک کی جانب سے بین الاقوامی فنڈ منجمد کر دیے گئے، جن میں وہ اثاثے بھی شامل ہیں جن تک افغانستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی توسط سے رسائی حاصل کر سکتا تھا۔
ان پابندیوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی انتہا کو پہنچ رہی ہے اور کیش کی کمی بھی ہو رہی ہے۔
گذشتہ ہفتے طالبان نے ایک آن لائن مہم کے ذریعے بین الاقوامی برادری سے اربوں ڈالر کے منجمد اثاثوں تک رسائی کی اپیل کی تھی۔
افغانستان کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک اسلامک بینک آف افغانستان کے سربراہ سید موسی کلیم ال فلاحی نے گذشتہ ہفتے کہا ہے کہ افغانستان میں بینکنگ کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
سید موسی کلیم کا کہنا ہے کہ افغانستان کا مالیاتی شعبہ ایک ‘بحران’ سے گزر رہا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد دبئی منتقل ہو جانے والے سید موسی کلیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں لوگ ‘بڑی تعداد میں بینکوں سے رقم نکال رہے ہیں۔’
‘وہاں پر صورتحال ایسی ہے کہ لوگ صرف پیسے نکال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بینک اور کوئی خدمات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔’