پاکستان کے وزیر اعظم عمران کان نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی بیکی اینڈرسن کو اسلام آباد میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں موجود داعش کے دہشتگرد جو وہاں کی سرزمین یہاں حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، بلوچ درانداز، اور اس کے علاوہ پاکستان طالبان، سب سے حملوں کا خطرہ ہے۔
پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ایک تاریخی دو راہے پر ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ 40 سال بعد امن کی راہ پر چلا جائے اور اگر طالبان تمام دھڑوں کو ساتھ لے کر حکومت بنائیں تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ غیر مستحکم افغانستان دوبارہ دہشتگردوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ بن سکتا ہے اور کہا کہ افغانستان میں صورتحال ’باعثِ تشویش‘ ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اس وقت کوئی بھی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ افغانستان کہاں جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ طالبان نے جو مثبت وعدے کیے ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ بین الاقوامی طور پر خود کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ افغانستان کو کبھی بھی باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اُنھیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُنھیں فوائد کی پیشکش کرنی چاہیے۔
خواتین کے حقوق سے متعلق ایک سوال پر اُنھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سوچنا غلطی ہے کہ باہر سے بیٹھ کر کوئی افغان خواتین کو حقوق دے سکتا ہے۔
عمران خان نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے دہشتگردی کی مد میں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس دوران بینظیر بھٹو بھی ایک حملے میں ہلاک ہوئیں اور پاکستان کو 150 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
پاکستان کو لاحق خدشات کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا خدشہ پناہ گزین ہیں جو پہلے ہی 30 لاکھ کی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت ان دونوں حوالے سے خدشات ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کام ہر کسی سے تعلق رکھنا اور بات کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستانی طالبان پہلے ہی پاکستان کے خلاف حملے کر رہے تھے تو کیا ایک اور ملٹری ایکشن لیا جا سکتا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ طالبان سے متعلق نہیں بلکہ افغانستان کے عوام سے متعلق ہے۔
جب عمران خان سے گذشتہ روز امریکی سینیٹ میں حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کو پناہ فراہم کرنے کے الزام کے بارے میں سوال کیا گیا تو عمران خان نے کہا کہ یہ انتہائی لاعلمی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکیوں کو معلوم نہیں تھا کہ حقانی نیٹ ورک کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ افغانستان میں رہنے والا پشتون قبیلہ ہے۔ ’ہم نے پچاس لاکھ افغان لوگوں کو جب پناہ دی تو اُن میں حقانی بھی تھے۔ کئی یہاں پناہ گزین کیمپوں میں پیدا ہوئے۔‘
’ہم سے توقع کی گئی کہ ہم پناہ گزین کیمپوں کی تلاشی کریں کہ کون طالبان ہے یا نہیں۔‘
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کا 50 ارب ڈالر بجٹ ہے جو 22 کروڑ لوگوں پر خرچ ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایک اور جنگ کے لیے پیسے نہیں تھے، ہم بمشکل ہی اپنے اخراجات پورے کر سکتے تھے۔
عمران خان نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو سکھایا گیا کہ غیر ملکی قبضے کے خلاف لڑنا مقدس جنگ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اب وہ مغربی فورسز کے خلاف حملے کر رہے ہیں تو اسے دہشتگردی کہا جاتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پشتون بیلٹ کی ہمدردیاں طالبان سے مذہبی بنیادوں پر نہیں ہیں بلکہ پشتون قومیت کی وجہ سے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں امریکہ کی جانب سے 480 ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ سب اتحادی ہوتے ہوئے کیا گیا ہے۔
عمران خان نے افغانستان سے امریکی انخلا کے بارے میں سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے امریکہ کے صدر سے افغانستان سے انخلا کے بعد سے اب تک بات نہیں کی ہے۔
جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ بائیڈن کا کال نہ کرنا کیا پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے پر سزا دینا ہے، تو اُنھوں نے کہا کہ یہ اُن سے پوچھا جانا چاہیے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ کا ساتھ دینے پر بے پناہ مشکلات اٹھائیں۔ ’ایک موقع پر 50 عسکریت پسند ہمارے خلاف حملے کر رہے تھے۔