دہلی پولیس نے چھ مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے دو پاکستان میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کر کے آئے تھے۔ پولیس کے ایسے متعدد دعوے ماضی میں بے بنیاد ثابت ہو چکے ہیں۔
دہشت گردی اور منظم جرائم کی تفتیش اور ان کو ناکام بنانے کے قائم کردہ دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے کمشنر نیرج ٹھاکر نے بتایا کہ چھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جو ملک کے بڑے شہروں میں دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان میں سے دو پاکستان میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کر کے آئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی مبینہ طور پر پاکستان سے کی جارہی تھی اور ”اس کا مقصد آنے والے تہواروں کے دوران بھیڑ بھاڑ والے مقامات کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانا تھا۔”
ہندوؤں کے دو بڑے تہوار درگا پوجا اور دیوالی اکتوبر اور نومبر میں آنے والے ہیں۔
پولیس کمشنر نیرج ٹھاکر نے بتایا،”ہم نے مہاراشٹر کے رہائشی محمد شیخ، دہلی کے جامعہ نگر علاقے کے رہنے والے اسامہ عرف سمیع، رائے بریلی کے رہنے والے مول چند عرف ساجو، الہ آباد کے ذیشان قمر، بہرائچ کے محمد ابوبکر اور لکھنؤ کے محمد عامر جاوید کو گرفتار کیا ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی ریاستوں میں کارروائیوں کے بعد ان لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ دو افراد کو دارالحکومت دہلی سے، تین کو اترپردیش سے اور ایک شخص کو راجستھان سے گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے ان کے پاس سے دو دستی بم، دو آئی ای ڈی، ایک کلوگرام آر ڈی ایکس اور اطالوی ساخت کا ایک پستول برآمد کرنے کا دعوی کیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں سے دو افراد مبینہ طور پر عمان کے راستے پاکستان گئے تھے اور وہاں انہوں نے ہتھیار چلانے اور دھماکہ خیز مادوں کو استعمال کرنے کی تربیت حاصل کی تھی، ”ان لوگوں کو پاکستان میں پندرہ دنوں تک ایک فارم ہاؤس میں رکھا گیا تھا، جہاں پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے انہیں اے کے 47 جیسے ہتھیار چلانے کی تربیت دی۔”
پولیس نے دعوی کیا کہ انڈر ورلڈ مفرور ڈان داؤد ابراہیم کا بھائی انیس ممکنہ حملوں کی تیاری میں مدد کر رہا تھا۔ وہ اپنے رابطوں کا استعمال کر کے تقرری، مالی امداد، ٹرانسپورٹ اور دیگر لاجسٹک کی فراہمی میں تعاون کر رہا تھا۔
خیال رہے کہ داؤد ابراہیم کو امریکا نے عالمی دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ نئی دہلی کا دعوی ہے کہ داؤد ابراہیم پاکستان میں موجود ہے جبکہ اسلام آباد ان دعوؤں کی تردید کرتا رہا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے،”گرفتار ملزمین میں سے دو نے تسلیم کر لیا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں تربیت حاصل کی تھی اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اشارے پر کام کر رہے تھے۔”
دہلی پولیس اور بھارت کی دیگر ریاستوں کی انسداد دہشت گردی پولیس ماضی میں بھی دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے دعوے کرتی رہی ہیں۔ تاہم برسوں تک جیلوں میں رکھنے کے باوجود پولیس ان میں سے بیشتر کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی۔
گزشتہ مارچ میں عدالت کے حکم کے بعد 129 مسلمانوں کو 19 برس کے بعد رہائی نصیب ہو سکی تھی، جن کے خلاف گجرات پولیس نے دہشت گردی کے الزامات میں مقدمات دائر کیے تھے۔ ان میں 19 برس کی عمر سے لے کر 75 برس کے افراد شامل تھے۔ یہ لوگ ایک جلسے میں شرکت کے لیے گجرات گئے تھے لیکن ریاستی پولیس نے انہیں دہشت گردی کے الزام میں پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا تھا۔
سن 2017 میں دہلی کی ایک عدالت نے گیارہ برس تک چلنے والی ایک عدالتی کارروائی کے بعد اشرف علی اور معروف قمر کو دہشت گردی کے تمام الزامات سے بری کر دیا تھا۔ عدالت نے پولیس کے رویے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے مبینہ جائے واردات کا دورہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی اور کوئی مناسب ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی۔
سابق سینیئر پولیس افسر اور کیرالا میں ڈائریکٹر جنرل پولیس کے عہدے پر فائز رہ چکے این سی استھانا کہتے ہیں کہ جھوٹے کیسز میں لوگوں کو پھنسانے کا اثر نہ صرف اس شخص پر پڑتا ہے بلکہ ملک پر بھی اس کے کافی مضمرات پڑتے ہیں۔ اصل مجرم کو گرفتار کرنے اور سزا دینے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کہیں آرام سے رہ رہا ہے اور موقع ملتے ہی دوبارہ حملہ کر سکتا ہے۔ اس لیے بے گناہ افراد کی بالخصوص دہشت گردی کے کیسز میں گرفتاری سے ملکی سلامتی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
استھانا کا کہنا ہے کہ بھارت میں انصاف کا حصول انتہائی مشکل ہے۔ ملزم کو بے گناہی ثابت کرنے میں ایک مدت گزر جاتی ہے اور جب وہ بے گناہ ثابت ہو کر جیل سے باہر آتا ہے اس وقت تک اس کا سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے،”خاندان بکھر جاتا ہے۔اس پر دہشت گردی کا ‘بدنما داغ‘ لگ جاتا ہے۔ اس کے بچوں کو اپنی تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے جبکہ اس کے والدین غم اور مایوسی میں اس دنیا سے گزر چکے ہوتے ہیں۔“
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے نام پر گرفتار کیے جانے والے افراد میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ حالانکہ ان میں سے بیشتر بعد میں بے گناہ ثابت ہوئے۔
غیر سرکاری تنظیم کامن کاز اور لوک نیتی کی سن 2018 میں کی جانے والی ایک تحقیقات کے مطابق بھارتی مسلمانوں کو احساس ہے کہ پولیس ان کے خلاف متعصبانہ رویہ اپناتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 47 فیصد مسلمانوں کا خیال تھا کہ پولیس مسلمانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرتی ہے۔اس تحقیقات میں پایا گیا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی نصف تعداد سمجھتی ہے کہ”مسلمان فطری طور پر جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں۔”
حقوق انسانی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصل مجرم کے بجائے بے گناہ افراد کی گرفتاری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بے گناہ ثابت ہونے والے افراد کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا دوسری طرف جھوٹے الزامات عائد کرنے والے پولیس اہلکاروں کو کسی طرح کی سزا نہیں دی جاتی۔