شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی جانب سے حملوں کے خدشات کے باوجود امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ کابل ایئرپورٹ سے افغان افراد کے انخلا کا سلسلہ ’آخری لمحے‘ تک جاری رکھے گا۔
جمعرات کو شہر کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے میں کم از کم 170 افراد ہلاک ہوئے اور اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی۔
امریکہ کے محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا کہ ابھی بھی ایئرپورٹ کے خلاف حملہ ہونے کے خدشات ہیں۔
امریکہ اس وقت افغان افراد کو ملک سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ ناٹو ممالک کی اکثریت اپنے ایمرجنسی آپریشن ختم کر چکی ہے۔
فرانس نے جمعے کے روز لوگوں کے انخلا کے لیے اپنی آخری پرواز چلائی تھی اور ان کا کہنا ہے کہ بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث اب وہ مزید پرواز نہیں چلا سکتے۔ فرانس کے مطابق انھوں نے افغانستان سے تین ہزار لوگوں کو باہر نکالا ہے۔
سپین بھی اپنا آپریشن مکمل کر چکا ہے۔
امریکہ اپنے فوج کو 31 اگست کو مکمل طور پر واپس بلا لے گا۔
طالبان کے ایک ترجمان نے جمعے کی شب کہا کہ طالبان نے ایئرپورٹ کے کچھ حصوں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے تاہم پینٹاگون نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
پینٹاگون کے مطابق اس وقت پانچ ہزار افراد کابل ایئرپورٹ کے اندر موجود ہیں اور جانے کی پروازوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکہ نے تقریباً دو ہفتے قبل شروع ہونے والے اس آپریشن میں اب تک ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ افراد کو ملک سے باہر نکال لیا ہے۔