شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں ترکی اور روس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
روس کے صدر ولادی یر پوتن اور ترکی کے صدر رجب طیب ارودغان نے جمعرات کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں اس معاہدے پر دستخط کیے۔
شام کی جنگ میں انسانی حقوق کی معائنہ کار تنظیم سیرین اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے خطے میں کسی حد تک امن کی فضا قائم ہوئی ہے۔
یہ معاہدہ ترک حمایت یافتہ باغیوں اور روسی حمایت یافتہ شامی فورسز کے درمیان کئی ہفتوں کی لڑائی کے بعد ممکن ہوا ہے۔
ادلب میں شامی حکومت کی فوجی کارروائی کے نتیجے میں 60 ترک فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ادلب ملک کا وہ واحد خطہ ہے جو حکومت مخالف گروہوں کے قبضے میں ہے۔
لڑائی سے ادلب صوبے میں انسانی بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی اور اس سے روس اور ترکی کے درمیان براہ راست جنگ کے خطرات منڈلانے لگے تھے۔
خیال رہے کہ ترکی یورپین فوجی اتحاد نیٹو کا رکن بھی ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے سے قبل ترکی نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس کے دو فوجی شام کے صدر بشارالاسد کی افواج سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ترکی نے مو¿قف اختیار کیا ہے کہ اس نے فوجی کارروائی کے دوران 21 شامی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے اور ان کی فوجی اڈوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
اس معاہدے کا اعلان ترکی کے صدر طیب اردوغان اور روس کے صدر ولادی میر پوتن کے درمیان چھ گھنٹوں کی بات چیت کے بعد کیا گیا ہے۔
اس معاہدے کے مطابق:
جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ایک بجے سے مکمل جنگ بندی کا اطلاق ہو گا۔
ادلب کی اہم موٹروے ایم فور، جو حکومی کے زیر کنٹرول شہروں حلب اور لتاکیہ کو ملاتی ہے، پر شمال میں چھ کلومیٹر جبکہ جنوب میں بھی چھ کلومیٹر تک سکیورٹی کی راہداری ہو گی۔
مارچ کی 15 تاریخ سے اس علاقے میں روس اور ترکی کی افواج مشترکہ پٹرولنگ کریں گی۔
مذاکرات کے دوران صدر اردوغان اس بات کو منوانے میں ناکام رہے کہ جن علاقوں میں شامی فورسز نے حالیہ دنوں میں کنٹرول سنبھالا ہے وہ وہاں سے واپس چلی جائیں۔
اس معاہدے میں اس بات کا بھی ذکر موجود نہیں ہے کہ وہ محفوظ پناہ گاہ کہاں ہو گی جہاں بے گھر شامی پناہ لے سکیں۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اس جنگ کے دوران دس لاکھ شامی افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ نو برس تک جاری رہنے والے جنگ کے دوران بے گھر ہونے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
شام کے صدر بشارالاسد نے ملک کا ہر انچ واپس لینے کے عزم کا اظہار کیا ہوا ہے۔ ادلب کی اہم شاہراو¿ں کو واپس لینے سے اقتصادی پابندیوں کا شکار شام کو بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔ تاہم اس لڑائی میں صدر بشارالاسد کی شامی فورسز کا زیادہ انحصار روس کی حمایت اور ایران کے حمایت یافتہ گروہوں پر ہے۔
روس کے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے صدر بشار الاسد کا کہنا تھا کہ وہ جنگ کے باوجود ترکی سے دوبارہ تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شام اور روس کے لیے ترکی ایک پڑوسی ملک ہے اور پڑوسی ملک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا ایک فطری سی بات ہے۔‘
یاد رہے کہ شام کے صوبہ ادلب میں جاری جنگ سے متعلق ماضی میں بھی متعدد جنگ بندی کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ ستمبر 2018 میں روس اور ترکی ’ڈی اسکلیشن زون‘ یعنی لڑائی سے محفوظ علاقے قائم کرنے پر راضی ہو گئے تھے۔ لیکن اس معاہدے پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔
نئے معاہدے کے بعد روس کے صدر نے میڈیا کو بتایا کہ یہ معاہدہ لڑائی کے خاتمے کے لیے اہم بنیاد ثابت ہو گا۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک شام کی جانب کیے جانے والے ہر حملے کا بھرپور جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔
بی بی سی کے سفارتی امور کے نامہ نگار جوناتھن مارکس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے سے متعلق بنیادی سوالات اب بھی موجود ہیں۔ یہ معاہدہ کب تک مو¿ثر رہے گا، اور آیا شامی اور ترک افواج واپس اپنے مخصوص علاقوں تک چلی جائیں گی۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کا مستقبل کیا ہوگا۔
بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا روس اور شام نے ادلب واپس حاصل کرنے والا مشن ختم کر دیا ہے اور کیا مو¿قف میں سامنے آنے والی یہ تبدیلی مستقل طور پر ہے یا محض انقرہ سے حالیہ کشیدگی میں کمی لانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔