ایران کے نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

اسلامی جمہوریہ ایران کے نومنتخب صدر اور قدامت پسند رہنما ابراہیم رئیسی نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی کی جانب سے لکھے گئے حکم نامے کو چیف آف اسٹاف نے پڑھتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی پسند کے بعد میں سمجھدار، قابل، تجربہ کار اور مقبول رہنما ابراہیم رئیسی کو اسلامی جمہوریہ ایران کا صدر بناتا ہوں۔

ابراہیم رئیسی نے اعتدال پسند سابق صدر حسن روحانی کی جگہ لی جن کے کامیاب دور اقتدار میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کا جوہری معاہدہ ہوا تھا۔

نئے صدر کو اپنے دور اقتدار کی ابتدا سے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ایران کو ایٹمی معاہدے کی بحالی کا چیلنج درپیش ہے جہاں امریکا پہلے ہی عائد کی جانے والی پابندیوں سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو چکا ہے۔

یاد رہے کہ 60 سالہ ابراہیم نے ایک ایسے موقع پر حلف اٹھایا ہے جب گزشتہ ہفتے ایک خطرناک ٹینکر حملے پر امریکا، برطانیہ اور اسرائیل نے ایران کو خبردار کیا تھا البتہ ایران اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔

صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد ابراہیم رئیسی نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ نئی حکومت ‘جابرانہ’ امریکی پابندیاں اٹھوانے کی پوری کوشش کرے گی لیکن قوم کے معیار زندگی کو غیر ملکیوں کی ایما سے مشروط نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کی معاشی مشکلات کی وجہ ہمارے دشمنوں کے عزائم کے ساتھ ساتھ ملک کے اندرونی مسائل بھی ہیں۔

آیت اللہ خامنائی نے بھی تسلیم کیا کہ ایران بہت سے مسائل سے دوچار ہے لیکن اس میں بہت کچھ حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ معاشی مسائل کو ٹھیک کرنے میں وقت لگتا ہے اور یہ راتوں رات نہیں کیا جا سکتا۔

جون میں صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والے سابق جج کو انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے مغربی طاقتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

گزشتہ روز منعقدہ تقریب کے ذریعے ابراہیم رئیسی نے باضابطہ طور پر صدر کا دفتر سنبھال لیا ہے اور وہ جمعرات کو پارلیمنٹ کے سامنے حلف اٹھائیں گے اور اپنے حکومتی وزرا کے ساتھ حکمت عملی کے حوالے سے بھی تجاویز پیش کریں گے۔

اٹلی میں یورپی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ کے ایک محقق کلیمینٹ تھرم نے کہا کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی مسائل ایران کے نئے صدر کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوں گے۔

کلیمینٹ تھرم نے کہا کہ ایران کو پڑوسی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بناکر معاشی صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

2015 کے معاہدے کے نتیجے میں ایران نے پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنی جوہری صلاحیتوں پر پابندی کو قبول کر لیا تھا۔

لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین سال بعد مذکورہ معاہدے سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے بعد ایران بھی اپنے بیشتر ایٹمی وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔

ٹرمپ کے جانشین جو بائیڈن نے معاہدے کی دوبارہ بحالی کا عندیہ دیا ہے اور برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس سمیت معاہدے کے دیگر فریقین کے ساتھ مل کر باضابطہ مذاکرات میں مصروف ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment