بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں گزشتہ دنوں سنگ آباد سے غلام جان کو اٹھانے اور اغوا کرنے کے بعدزیر حراست انہیں بہیمانہ تشدد سے شہید کرنے پر شدید تشویش کا ظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کے غیر قانونی غیر آئینی اور ناانصافیوں پر مبنی کارروائیاں جاری ہیں جس سے بلوچستان کا ہر گھر متاثر ہو چکا ہے، غلام جان اغوا کرنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے زیر حراست جس طرح کی اذیت دے کر شہید کیا اس کی آج دنیا میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔دماغی طور پر ایک غیر توازن غریب آدمی کو گھر سے بلاجواز اٹھانا اور بعدازاں انہیں اس جیسی اذیت دے کر شہید کرنا ہمارے ان دعوؤں پر مہر تصدیق ہے کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز سنگین جرائم میں ملوث ہیں اور ان جرائم کا دائرہ کار روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف سیکورٹی فورسز کی طر ف سے بہیمانہ طور پر لوگوں کو ایسے اذیت دے کر شہید کیا جاتا ہے پھر دوسری جانب مختلف ہتکھنڈوں کے ذریعے خاندان والوں کو ڈرا اور دھماکایا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے وارث کی شہادت پر بات کی یا آواز اٹھایا انہیں مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ30 جولائی کے رات ایک آپریشن کے دوران ہیرونک اور سنگ آباد کے درمیانی علاقے میں سیکورٹی فورسز نے ذہنی طور پر نیم توازن غلام جان سمیت تین افراد کو جبری طور پر گمشدہ کیا تھا جنہیں دوران حراست انتہائی غیر انسانی اذیت دی گئی جس سے غلام جان شہید ہوا، جب انہوں نے لاش تربت سول اسپتال پہنچائی تھی تو وہ دیکھنے کے لائق نہیں تھی جس کے جسم کا کھال اتر چکا تھا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سیکورٹی فورسز اپنے زیر حراست لوگوں کو کس طرح کی اذیت اور تشدد سے دوچار کرتے ہیں، دماغی طور پرایک نیم توازن شخص کو ایسی اذیت دی گئی تھی جو جرمنو ں نے ہٹلر کے یلغار کے دور میں یہودیوں کو نہیں دیا تھا ایسی اذیت اور تشدد شاید ہی دنیا میں آج کوئی بھی دہشتگرد اپنے مخالفین کو نہیں دے رہا ہے اس طرح کی اذیت اور تشدد انسانی اقتدار اور حقوق کی سنگین پامالی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اعلیٰ اداروں نے بلوچستان کو مکمل طور پر سیکورٹی فورسز کے حوالے کیا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں ایک ایسی خطرناک المیہ نے جنم لیا ہے جس کوالفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان میں میڈیا بلیک آوٹ ہونے کی وجہ سے یہاں پر ہونے والے جرائم دنیا کے سامنے آشکار نہیں ہو رہے۔ غلام جان ایسا پہلا مثال نہیں ہیں بلکہ آئے دن بلوچستان میں کسی کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے مگر ان جرائم پر خاموشی مزید المیوں کا سبب بن رہا ہے۔
بی وائی سی کے ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ گزشتہ دنوں غلام جان کے خاندان نے اپنے بیٹے کے اس بہیمانہ قتل اور دیگر افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر ان کے خاندان کو مختلف طریقوں سے سخت تنبیہ کیا گیا کہ اگر انہوں نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو ان کے دوسرے لوگوں کو بھی غلام جان کی طرح قتل کرکے لاش پھینک دیں گے جبکہ کچھ پیسے سے وہ ان کے خاندان والوں کو خاموش کرانے کی کوشش میں ہیں یہ بھی ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز جب بھی کسی کو قتل کرتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں آواز اٹھانے کی صورت میں ان کے خاندان والوں کو سخت نتائج کی دھمکی دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ترجمان نے پاکستان کے معزز عدلیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ غلام جان کے واقعے کا نوٹس لیں۔