تفتان میںبلوچستان ایران بارڈر کے ذریعے ایران سے بلوچستان وپاکستانی شہریوں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے اور وہاں قرنطینہ میں رکھے گئے افرادکی تعداد ڈھائی ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔
تفتان اور چمن سمیت بلوچستان کے مختلف سرحدی علاقوں میں حکومت کے اعلانات کے مطابق کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔
کسٹمز حکام کے مطابق تفتان میں زائرین کے لیے مختص پاکستان ہائوس مسافروں سے بھرگیا جس کے باعث دیگر مسافروں کو ٹاو¿ن ہال منتقل کیا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق ایران سے آنے والے زائرین سمیت 3 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو اسکریننگ کے بعد قرنطینہ سینٹر تفتان منتقل کیا گیا ہے جہاں انہیں ماسک، خوراک اور رہائش کی سہولت فراہم کی گئی ہیں۔
بارڈر انتظامیہ کے مطابق ایران سےمزید پاکستانیوں کی آمد جلد متوقع ہے۔
ادھر پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باب دوستی کی بندش کے باعث آمدورفت معطل ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اس وقت کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 5 ہے جن میں سے دو مریضوں کا تعلق کراچی، دو کا اسلام آباد اور ایک کا گلگت بلتستان سے ہے۔
حکومت نے ایران میں وائرس کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے ملک میں حفاظتی اقدامات کے تحت بلوچستان کے ضلع تفتان سے بلوچستان ایران بارڈر بند کررکھا ہے جب کہ چمن سے افغان بارڈر بھی بند ہے۔
اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں تعلیمی اداروں میں تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کورونا وائرسز ایک سے زائد وائرس کا خاندان ہے جس کی وجہ سے عام سردی سے لے کر زیادہ سنگین نوعیت کی بیماریوں، جیسے مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) اور سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم (سارس) جیسے امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔
یہ وائرس عام طور پر جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سارس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بلیوں کی ایک خاص نسل Civet Cats جسے اردو میں مشک بلاو¿ اور گربہ زباد وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سے انسانوں میں منتقل ہوا جبکہ مرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نسل کے اونٹ سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس کی علامات میں سانس لینے میں دشواری، بخار، کھانسی اور نظام تنفس سے جڑی دیگر بیماریاں شامل ہیں۔
اس وائرس کی شدید نوعیت کے باعث گردے فیل ہوسکتے ہیں، نمونیا اور یہاں تک کے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ اس وائرس کی ایک اور قسم سارس ہے جس سے 3-2002 کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 800 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور یہ وائرس بھی چین سے پھیلا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری انفلوئنزا یا فلو جیسی ہی ہے اور اس سے ابھی تک اموات کافی حد تک کم ہیں۔
ماہرین کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق لوگوں کو بار بار صابن سے ہاتھ دھونے چاہئیں اور ماسک کا استعمال کرنا چاہیئے اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات استعمال کرنی چاہیئے۔