امریکی خبر رساں ادارے ’بلوم برگ‘ کے مطابق بھارت نے چین کے سرحد کے ساتھ کم از کم 50 ہزار اضافی فوجی تعینات کر دیے ہیں۔ تاہم، بھارت کی فوج اور نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ترجمان نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق اس معاملے کے بارے میں معلومات رکھنے والے چار افراد کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے بھارت، چین اور اس کی سرحد سے متصل تین علاقوں میں اپنے فوجی اور لڑاکا جیٹ اسکوارڈن بھیج چکا ہے۔
ان کے مطابق بھارت کی سرحد پر کم از کم دو لاکھ کے قریب فوجی مرکوز ہیں اور یہ تعداد بچھلے برس سے 40 فی صد زیادہ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس لداخ کے شمالی علاقے میں بھارت اور چین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں تھیں۔
جنوبی ایشیا میں پیدا شدہ دفاعی صورت حال کو دیکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت قومی سلامتی کو درپیش خطرات اور ہمسایہ ملک چین سے لاحق خطرات کے پیش نظر خلا میں اپنی فوجی صلاحیتیں بڑھانا چاہتا ہے۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے اوبزرور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر آف دی سینٹر فار سیکیورٹی، اسٹریٹیجی اینڈ ٹیکنالوجی راجیشوری پلائی راجہ گو پالن کا کہنا ہے کہ بھارت کے لیے اپنے خلائی پروگرام میں فوجی صلاحیتوں پر توجہ دینے کی اصل طاقت جغرافیائی سیاست ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھارت کو چین کی خلا میں بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کا جواب دینا ہو گا۔
ان کے بقول بھارت نے تسلیم کیا ہے کہ اگر وہ کوئی قدم نہیں اٹھاتا تو وہ خلا میں فوجی صلاحتیں استعمال کرنے سے محروم ہو جائے گا۔
بھارت نے دو برس قبل اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار کا تجربہ کیا تھا تا کہ وہ یہ ظاہر کر سکے کہ وہ خلا میں سیٹلائٹ گرا سکتا ہے۔
بھارت کی جانب سے اپنے خلائی پروگرام میں فوجی صلاحیتوں سے متعلق یہ ایک اہم اقدام تھا۔
یاد رہے کہ سیٹلائٹ مخالف ہتھیار کو خلائی ہتھیار بھی کہا جاتا ہے جو دشمن کے سیٹلائٹ کو تباہ کرنے صلاحیت رکھتے ہیں۔
دو برس قبل کیے جانے والے اس تجربے کے بعد بھارت، چین، روس اور امریکہ کے بعد سیٹلائٹ مخالف صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والا چوتھا ملک بن گیا تھا۔
بھارت نے چین کی جانب سے 2007 میں سیٹلائٹ مخالف تجربے کے 12 برس بعد یہ تجربہ کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا خلائی پروگرام خلائی ریسرچ پر مرکوز ہے جب کہ چین کا سیٹلائٹ تباہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ بھارت کے خلائی تحفظ کے لیے خطرہ ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی کے منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسز کے سینئر عہدیدار اجے لیلے کا کہنا ہے کہ بھارت ایک عجیب و غریب صورتِ حال میں گھرا ہوا ہے۔ ان کے بقول بھارت کی سرحد پر دو مخالف ایٹمی ہتھیاروں والی ریاستیں ہیں اور ان میں سے ایک چین نے خلائی صلاحتیوں کے حوالے سے خود کو تیار کیا ہوا ہے لہذا ان کے بقول بھارت کو بھی مستقبل کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
بھارت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک خلائی افواج کی مدد کے لیے سینسر اور سیٹلائٹ کی تیاری کر رہا ہے۔
اجے لیلے کے بقول جب آپ کو 24 گھنٹے کسی علاقے پر نظر رکھنی ہے تو اس کے لیے آپ کو مزید سیٹلائٹس کی ضرورت ہو گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی فوجی تناظر سے خلائی اثاثوں سے حساس علاقوں کی نگرانی کی صلاحیتوں کو بڑھانے پر توجہ مرکوز ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کے چین کے ساتھ اپنی ہمالیائی سرحدوں پر خطرات ہیں جہاں دونوں کے مابین متنازعہ سرحدوں نے فوجی تناؤ کو جنم دیا ہے۔
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے منوج جوشی کا کہنا ہے کہ بھارت کا سیٹلائٹ پروگرام ابتدائی حالت میں ہے جب کہ اس کی تعداد بھی دیگر ممالک، چین اور امریکہ کے مقابلے میں کم ہے۔
دوسری جانب منوج جوشی کا کہنا ہے کہ بھارت میں حالیہ برسوں میں دفاعی بجٹ میں کمی سامنے آ رہی ہے جب کہ توقع کی جا رہی ہے کرونا وبا کی وجہ سے زیادہ وسائل مختص کرنا مشکل ہے۔