لاپتہ والد کی بازابی کیلئے سوائے خودسوزی کے دوسراراستہ نہیں بچا ہے، سمی بلوچ

0
235

ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کے 12سال مکمل ہونے پر کراچی میں ایک ریلی نکالی گئی اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

پیر کے دوپہر کراچی آرٹس کونسل سے لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوکر ایک ریلی نکالی گئی، ہاتھوں میں پلے کارڈز، بینرز اور لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھائے مظاہرین نے جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کی۔

ریلی میں خواتین اور بچوں سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں اور لاپتہ افراد لواحقین شریک تھے۔

ریلی کے شرکاء شہر کے مختلف سڑکوں سے مارچ کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے سامنے پہنچ گئے جہاں احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔

اس موقع پر لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی بلوچ نے کہا کہ آج بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں جبری گمشدگیوں کے واقعات سنگین صورتحال اختیار کرچکی ہے جہاں لاپتہ افراد کی فہرست روزانہ کی بنیاد پر دراز ہوتی جاری ہے۔ بین الاقومی قوانین سمیت آئین پاکستان اور خصوصاً موجودہ حکومت نے جبری گمشدگیوں پر قانون سازی ضرور کی ہے مگر اس سنگین جرم کی عملاً روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ سنجیدگی نظر نہیں آرہی ہے۔

آج لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف بلوچوں کا نہیں ہے بلکہ سندھی پشتون شیعہ اور پنجابی مِسنگ پرسن کی صورت میں دیکھنے میں آرہی ہے ملک کا کوئی ایسا صوبہ نہیں جہاں لوگوں کو لاپتہ کرنے کے واقعات نہیں ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی گمشدگی کو بارہ سال مکمل ہو چکے ہیں۔

جنہیں بلوچستان کے علاقے اورناچ خضدار میں سرکاری ڈیوٹی کے دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا اور آج بارہ سال گزرنے کے بعد میرے والد کی کوئی خبر نہیں آئی۔

انکا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے ملک کی شہری کی حیثیت سے کوئی ایسا دروازہ نہیں چھوڑا جہاں سے ہمارے والد کی بازیابی کیلئے کوئی امید نظر آتی تھی۔

ان بارہ سالوں میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے رہیں، عدالتوں کے چکر کاٹے سپریم کورٹ ہائی کورٹ کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوتے رہے میڈیا کے ذریعے مقدمہ لڑا مگر ان بارہ سالوں میں ہمیں دلاسے تسلیاں اور ہم سے جھوٹے وعدے کیے گئے۔

سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ چند ماہ پہلے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ہم سے دوران ملاقات مجھ سے وعدہ کیا کہ میرے والد کی بازیابی کے لیے ذاتی دلچسپی لیں گے مگر کئی مہینے گزرنے کے باوجود وزیر اعظم کی طرف سے مجھ سے رابطہ نہیں کیا گیا۔

مظاہرے میں سمی دین نے کہا کہ ہم نے تمام تر ذرائع سے رجوع کیا مگر ہمیں انصاف نہیں ملا، اب ہمارے سوائے خودسوزی کے کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

احتجاجی مظاہرے میں لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی اہلیہ، بزرگ سیاسی رہنما یوسف مستی خان، بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین، وائس فار مسنگ پرسنز کے رہنماؤں اور متاثرہ افراد نے بھی اظہار خیال کرتے جبری گمشدگیوں کے خلاف پیش ہونے والے قوانین پر عمل درآمد کرانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ صرف کاغذ کے ٹکڑے پر انسانی اقدار کی پاسداری نہیں بلکہ عملی طور پر یہاں انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here