نیشنل پارٹی کا جلسہ سورج کو انگلی سے چھپانے کی کوشش

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

عوامی رائے

نیشنل پارٹی کی جانب سے23 مئی کو ایک کارنر جلسہ ڈاکٹر مالک کی رہائش گاہ کے اندر ہوا،پہلے سے شیڈول یہ جلسہ نیشنل پارٹی میں کچھ لوگوں کی شمولیت کے لیے رکھا گیا تھا۔

اس پروگرام سے دو روز قبل نیشنل پارٹی کے مقامی رہنماء ملا برکت پر حملہ ہوا جو اپنی پلٹ پروف گاڑی کی وجہ سے بچ گیا،جس کی ذمہ داری متحرک بلوچ آزادی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے لیتے ہوئے کہا کہ قومی آزادی کے جہد کے خلاف کام کرنے والے ریاستی معاون کاری سے باز آئیں۔

اس کے بعد جلسے میں ڈاکٹر مالک نے بلوچ سرمچاروں کے خلاف وہی زبان استعمال کیا جسے وہ اپنی وزارت اعلی کے دوران استعمال کرتے تھے اور ان کو برادر کش کہا جبکہ اس دور کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک اور اس کے ترجمان جان محمد بلیدی کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جو طاقت کے نشے میں بلوچ قومی آزادی کے خلاف کس طرح استعمال ہوئے۔جلسے میں ڈاکٹر مالک نے براد کشی سمیت آزادی پسند تنظیم کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ صرف نیشنل پارٹی کے لیڈران اور کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس جلسے کے بعد ہمارے بیوروچیف نے موجودہ جلسہ نما پروگرام،ڈاکٹر مالک کے وزیر اعلیٰ ہونے اور اس کی تنظیم کی صورت حال کے حوالے عوامی رائے لینے کی کوشش میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے رابطہ کیا۔

اس رائے میں سیکیورٹی حوالے ناموں کورازمیں رکھا گیا ہے۔

عام لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مالک کے منہ سے برادر کشی کی باتیں مذاق لگتی ہیں،دراصل نیشنل پارٹی ضلع کیچ،ضلع گوادر اور اب ضلع پنجگور میں مکمل ختم ہو چکی ہے،ان کا خاتمہ ہو چکا ہے وہ اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

ایک سنئیر مقامی سیاست دان جسکا تعلق ایک زمانے میں اسی تنظیم سے تھا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مالک میرے خیال میں خود اپنے سیاسی استاد فدا احمد کے قاتل ہیں،اس لیے کہ انہوں نے شہید فدا کے قاتلوں کو اپنی صفوں میں جگہ دی،کسی طرح اس کیس کو مالک نے ختم کروایا جو ایک الگ بحث ہے،جبکہ آج منشی محمد جو ایوب بلیدی کا قاتل ہے اس کے لوگوں کو اپنی سیاسی انتقام کے لیے اپنے ساتھ ملا لیا ہے،ان کے مطابق ایوب بلیدی مخلص ایماندار اور مکران کی ایک جاندار آواز تھے۔اب ڈاکٹر مالک سے کوئی پوچھے کہ برادر کشی کے مطلب سے ان کا کیا مراد ہے؟

عوامی حلقوں کے مطابق جب ڈاکٹر مالک وزیر اعلیٰ تھے تو غرور کی انتہا تھی وہ صرف فوجی انداز میں بات کرتے اور اس کے دست راست جان محمد بلیدی نے نیشنل پارٹی کو عوامی پارٹی کی بجائے ریاستی فوجی پارٹی بنایا اور ڈیتھ اسکواڈز کے لوگوں سے بھر دیا۔مقامی لوگوں کے مطابق امام بھیل سے لے کر شفیق مینگل جیسے مافیا کے سرغنہ نیشنل پارٹی کے دست و بازو بن گئے۔ کیا یہ سیاسی لوگ ہیں یا ملا برکت جب آپ اپنی تنظیم کو اوپر کی سطح پر ڈرگ مافیا اور اسلامی دہشت گردوں اور ڈیتھ اسکواڈز سے بھر دیتا ہے تو نچھلی سطح پرکون سا سیاسی ورکر بچ جاتا ہے،یقینا ان کے ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ نچھلے سطح پر بھی سسٹم چلاتے ہیں اور یہی سبب رہا ہے کہ نیشنل پارٹی زوال کا شکار ہو گئی ہے اور اب اپنی غلطیاں سرمچاروں کے سر ڈال رہی ہے۔

ایک سنئیر صحافی نے بتایا کہ منشی محمد جو ایوب بلیدی کا قاتل ہے،یقینا دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہو گیا ہے مگر یہاں سیاسی انتقام کی وجہ سے ایک اور قبائلی لڑائی کی تیاری جان محمد بلیدی کے ذریعے جاری ہے۔بلیدہ میں بلیدی خاندان کی اجاراداری ہے اور اس کے خلاف جان محمد ،ڈاکٹر مالک ایک اور گروہ منشی محمد اور ڈاکٹر حیات کو سامنے لا کر اس سیٹ کو قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں،صحافی کے مطابق دونوں فریقوں کا تعلق پاکستانی فوج سے ہے اب دیکھنا ہو گا کہ فوج کس کی وفاداریوں کو ذیادہ اہمیت دیتی ہے۔

ایک کارباوی شخص نے بتایا کہ ڈاکٹر مالک اپنی سیاسی غلطیوں کو چھپانے کے لیے اب بلوچ سرمچاروں کے خلاف اس لیے بات کر رہا ہے کہ وہ سرکار میں واپسی اور کرسی کا خواہش مند ہے۔

تاہم بلوچ سرمچاروں کے خلاف بات کر کے اپنی غلطیوں کو چھپانے پر ڈاکٹر مالک کو شدید عوامی ردعے عمل کا سامنا ہے۔ایک مقامی شخص نے بیوروچیف کو بتایا کہ ہم نے نہیں دیکھا ہے کہ کسی سرمچار نے کسی کاروباری کو اغوا کیا ہو،یا کسی بے گناہ سیاسی رہنماء یا کارکن کو مارا ہو،اب ڈاکٹر مالک اپنی گریبان میں جھانکیں اپنے صفوں میں دیکھیں کہ اسے کیوں نشانا بنایا جا رہا ہے،کوئی کسی کو بلاوجہ نہیں مارتا ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق معروف ریاستی ایجنٹوں،ڈیتھ اسکواڈز کے اہم سربراؤں،،علاقائی بیشتر مخبروں کو لوگ جانتے ہیں،کچھ سفید پوش کاروباری اور سیاسی لوگ بھی ہیں جو بہترین فلمی انداز سے بلوچ قومی جہد کے خلاف کام کر رہے ہیں،اور نیشنل پارٹی ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں سے بھری پڑی ہے اس لیے کسی اور پر الزام لگانے سے بہتر ہے کہ مالک اور جان محمد بلیدی پہلے اپنی پوزیشن واضح کریں قوم سے اپنے کیے گئے گناہوں کی معافی مانگیں،خاص کر وزارت اعلی کے منصب پر اپنے کردار کے حوالے سے،پھر اپنی تنظیم کے اندر صفائی کریں ایسے الزامات لگانے سے خود کو بری الذمہ قرار دینا،دن میں کھلے آنکھ خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔

جلسے کے بعد ڈاکٹر مالک و اس کے خاص لوگ شدید عوامی ردے عمل اور دباؤ کا شکار بتائے جاتے ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment