لداخ میں انڈیا کیساتھ سرحدی جھڑپ میں 4فوجی ہلاک ہوئے، چین کا اعتراف

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

چین نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ گذشتہ سال جون میں انڈین فوجیوں کے ساتھ گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ میں ان کی چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

چینی سرکاری میڈیا نے جمعے کو خبر دی کہ چار فوجی ’چینی سرحد میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والی غیر ملکی فوج‘ سے لڑتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔

یہ لڑائی گذشہ سال جون میں ہوئی تھی جس میں انڈیا کے 20 فوجی ہلاک ہوئے تھے تاہم اس وقت چین نے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں دی تھیں۔

لداخ خطے میں گلوان وادی پر یہ 45 برسوں میں پہلا موقع تھا جب دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان آپس میں جھڑپ ہوئی ہو۔ اس جھڑپ میں آہنی کیلوں والے ڈنڈے، پتھر اور ہاتھ سے لڑائی ہوئی تھی۔

چینی میڈیا کے مطابق چین ہونگ جن، چین ڑانگرونگ، ڑاو¿ سیوو¿ان اور وانگ ڑوو¿ران ہلاک ہونے والے فوجی ہیں اور ان کو بعد از موت اعلیٰ فوجی اعزازات سے نوازا گیا ہے جنھوں نے ’اپنی جوانی، خون اور اپنی زندگی‘ قربان کر دی۔

ایک اور فوجی قی فاباو¿ کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ فوجی دستے کے کمانڈر تھے اور اس جھڑپ میں ان کو شدید زخم آئے تھے اور انھیں بھی فوجی اعزاز دیا گیا ہے۔

انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تنازع دہائیوں سے چل رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ہمالیہ کے پہاڑوں کے ساتھ 3400 کلومیٹر سے زیادہ طویل حصہ ہے جہاں پر باقاعدہ سرحد کا نشان نہیں ہے اور اسے محض لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے۔

اس خطے میں دریا، جھیلیں اور شدید برفباری ہوتی ہے جس کی وجہ سے سرحد کا تعین کرنا بہت دشوار ہے اور اس کی وجہ سے فوجی متعدد بار ایسے مقامات پر پہنچ جاتے ہیں جس پر دوسرا ملک اپنا حق جتاتا ہے۔

تاہم دونوں ممالک نے یہ معاہدے کیا ہوا ہے کہ کسی بھی صورت میں اس خطے میں ہتھیاروں کا اور دھماکہ خیز مواد کا استعمال نہیں ہو کیا جائے گا۔

جنوری 2021 میں بھی سرحد پر شمال مشرق میں واقع انڈین ریاست سکم پر بھی دونوں افواج کی جھڑپ ہوئی تھی جس میں دونوں فریق کے فوجی زخمی ہوئے تھے۔

چینی فوج نے گلوان جھڑپ میں اپنے فوجیوں کی ہلاکت کی بات ایک ایسے وقت میں کی ہے جب پینگونگ جھیل شمالی اور جنوبی حصوں سے دونوں ممالک کے فوجیوں کی واپسی شروع ہو گئی ہے۔

انڈیا اور چین نے حال ہی میں ‘ڈس اینگیج’ یعنی لڑائی نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور دونوں افواج سرحد سے اپنی فوجیں پیچھے ہٹا رہی ہیں۔

گذشتہ برس پندرہ اور سولہ جون کی درمیانی شب لداخ کی گلوان وادی میں ایل اے سی پر ہونے والی اس جھڑپ میں انڈین فوج کے ایک کرنل سمیت 20 جوان ہلاک ہو گئے تھے۔

انڈیا کا دعویٰ ہے کہ چینی فوج کا بھی نقصان ہوا ہے تاہم اس کے بارے میں چین کی جانب سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا تھا۔ چین نے اپنی فوج کے کسی بھی طرح کے نقصان کی بات تسلیم نہیں کی۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا اور دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف جارحیت کا الزام لگاتے رہے۔

وادی گلوان میں انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) پر دونوں طرف سے فوجیوں کے مابین جھڑپ میں لوہے کی راڈز کا استعمال کیا گیا جن پر کیلیں لگی ہوئی تھیں۔

انڈیا چین سرحد پر موجود انڈین فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے بھی بی بی سی کو یہ تصاویر بھجوائی اور بتایا کہ چینی فوجیوں نے اس ہتھیار سے انڈین فوجیوں پر حملہ کیا۔

وادی گلوان متنازع علاقے اکسائی چن میں ہے۔ گلوان وادی لداخ اور اکسائی چن کے درمیان انڈیا چین سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہاں لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) اکسائی چن کو انڈیا سے الگ کرتی ہے۔

انڈیا اور چین دونوں ہی اکسائی چن پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ وادی چین میں جنوبی شنجیانگ اورانڈیا میں لداخ تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ علاقے انڈیا کے لیے سٹریٹجک لحاظ سے اہم ہیں کیونکہ وہ پاکستان، چین کے شنجیانگ اور لداخ کی سرحدوں سے متصل ہے۔

1962 کی جنگ کے دوران بھی دریائے گلوان کا یہ علاقہ جنگ کا مرکز تھا۔ اس وادی کے دونوں اطراف کے پہاڑ فوج کو جنگی حکمت عملی میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں جون کی گرمی میں بھی درجہ حرارت منفی صفر سے کم ہے۔

مورخین کے مطابق اس جگہ کا نام غلام رسول گلوان کے نام پر رکھا گیا تھا جو ایک عام لداخی شخص تھا۔ غلام رسول ہی نے اس جگہ کو دریافت کیا تھا۔

انڈیا کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں وادی گلوان میں ایک سڑک بنا رہا ہے جسے روکنے کے لیے چین نے یہ حرکت کی ہے۔ اس سڑک سے انڈیا کو اس پورے خطے میں ایک بہت بڑا فائدہ ہو گا۔ یہ سڑک قراقرم پاس کے قریب تعینات فوجیوں کو سپلائی کی فراہمی کے لیے بہت اہم ہے۔

Share This Article
Leave a Comment