نیوزی لینڈ نے میانمار کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے اور میانمار کی فوجی قیادت پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ ا±ن کا ملک یہ یقینی بنائے گا کہ ایسے تمام پروجیکٹس روک لیے جائیں جس سے میانمار کی فوجی حکومت کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔
جیسنڈا آرڈن نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ میانمار سے تعلقات منقطع کر کے ہم پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ کی جانب سے میانمار کو ملنے والی کسی بھی قسم کی فنڈنگ سے فوجی حکومت استفادہ نہیں کر سکے گی۔
دوسری جانب نیوزی لینڈ کے وزیرِ خارجہ نانیا مہوتا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیوزی لینڈ میانمار کی فوجی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا اور مطالبہ کرتا ہے کہ سیاسی قیادت کو فوری رہا کرتے ہوئے سویلین بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔
وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے میانمار کی فوجی قیادت پر آئندہ چند ہفتوں میں سفری پابندی عائد کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔
ہفتے کو بھی ہزاروں مظاہرین نے مارشل لا کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا تھا۔
یاد رہے کہ میانمار کی فوج نے یکم فروری کو ملک کی منتخب رہنما آنگ سان سوچی کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایک سال تک ملک میں ہنگامی صورتِ حال نافذ رہے گی اور اسی عرصے میں نئے انتخابات کرانے کے بعد اقتدار کامیاب نمائندوں کو سونپ دیا جائے گا۔ تاہم اس عرصے کے دوران تمام تر اختیارات فوج کے سربراہ کے پاس رہیں گے۔
میانمار کی فوج نے آنگ سانگ سوچی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی وجہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو قرار دیا تھا۔
دوسری جانب آنگ سان سوچی کی گرفتاری اور فوجی حکومت کے قیام کے خلاف میانمار میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
فوجی حکومت کی جانب سے خبردار کیے جانے کے باوجود پیر کو ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے سیاسی حکومت کی بحالی اور آنگ سان سوچی سمیت دیگر گرفتار سویلین رہنماﺅں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔