جنوبی کوریا کی عدالت نے سابق صدر لی میونگ باک کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے رشوت اور غبن کے جرم میں 17 سال کی قید سنا کر جیل بھیج دیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق لی میونگ باک کو مقامی عدالت نے 2018 میں 15 سال قید اور 13 ارب وان (ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر) جرمانہ کیا تھا جس کے بعد وہ مختصر عرصے کے لیے جیل میں بھی رہے تھے۔
لی میونگ نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ لی میونگ باک 2008 سے 2013 کے دوران جنوبی کوریا کے صدر رہے۔
رپورٹ کے مطابق سابق صدر پر رشوت لینے کا الزام درست ثابت ہوا تھا اور ان کے خلاف سام سنگ الیکٹرونکس کےچیئرمین لی کون ہی کو لاکھوں ڈالرز کی رشوت کے عوض صدارتی معافی دینے کا جرم ثابت ہوا۔
کمپنی کے چیئرمین لی کون ہی کو ٹیکس چھپانے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کی سینٹرل ڈسٹرک کورٹ میں سماعت ہوئی جس کے بعد عدالت نے سخت سزا سنائی۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ‘لی میونگ بیک نے اپنے غلط کاموں پر ذرہ برابر پشیمانی یا احساس ذمہ داری کا اظہار نہیں کیا’۔
سابق صدر کے حوالے سے عدالت نے کہا کہ انہوں نے جن سرکاری عہدیداروں کے ساتھ کام کیا تھا، ان پر اور سام سنگ کے ملازمین پر الزام عائد کیا۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے کئی سابق صدور اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد سیاسی حریفوں کی جانب سے شروع کی گئی تفتیش کے باعث جیل بھیجے جا چکے ہیں۔
لی میونگ بیک کے پیش رو پارک گیون بھی رشوت لینے اور اختیارات کے غلط استعمال کے جرم میں 32 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جو 2017 میں صدر کے حیثیت سے اپنی مدت مکمل کرچکے تھے جبکہ ان کے خلاف کرپشن اسکینڈل پر ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا۔
جنوبی کوریا کے ایک اور سابق صدر رومو ہیون نے ان کے اہل خانہ سے کرپشن کے حوالے سے تفتیش پر خودکشی کی تھی۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں لی میونگ باک کے خلاف عدالتی کارروائی ریاستی ٹی وی پر بھی نشر کی گئی تھی تاہم خرابی صحت کی وجہ سے انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا تھا۔
سابق صدر لی میونگ باک پر اپنی کمپنی ’داس‘ کو دھوکہ دہی سے 2 کروڑ 17 لاکھ ڈالر کا فائدہ پہنچانے اور سام سنگ کمپنی سے رشوت لینے کا الزام تھا۔
عدالت نے کہا تھا کہ لی میونگ باک نے سام سنگ کمپنی سے 54 لاکھ ڈالر رشوت وصول کی تاکہ اپنی کمپنی داس کے قانونی اخراجات پر خرچ کیے جا سکیں۔