سیاسی عمل میں فیڈ بیک سسٹم کی اہمیت تحریر:۔ ڈاکٹر جلال بلوچ

0
520

فیڈ بیک کا نظام بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کا ایک اہم ستون ہے جس میں سیاسی کاکررکنان اور قائدین کے مابین سیاسی نظام سے وابستہ ہر امور پہ تبادلہ خیال اور ان پہ آراء کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور بالخصوص وہ وہ کام جس کی ذمہ داری کسی کارکن یا رہنماء کو دی گئی ہو۔ اس پہ کام سے پہلے تاکہ بہتر نتائج کا حصول ممکن ہو اور کام کے بعد تاکہ کمزوریوں کا ازالہ ہوسکے خیالات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ طریقہ کار دراصل پیشہ ورانہ سیاسی جماعتوں کے نظام میں اتنا پروان چڑھتا ہے جو باقائدہ ثقافت بن کے ابھرتا ہے جس کی وجہ سے ہر کارکن کو لگتا ہے کہ انہیں جماعت یا تنظیم کے کسی اور فرد کو رائے دینے کا حق حاصل ہے۔

تبادلہ خیال پہ آراء

(Feedback)

کی اس رسم کی وجہ سے ایک تو ماضی کی غلطیوں کی نشاندہی کے ساتھ ان کا ازالہ ممکن ہوتا ہے، دوم: حال اور مستقبل کے کاموں کو زیادہ منطقی بنیادوں پہ پرکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان میں غلطیوں کی گنجائش کم ہوتی ہے اور سوئم: اس نظام کی بدولت کارکنان کا آپس میں اور کارکنان کا لیڈرشپ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔

عمومی طور پر فیڈ بیک

(Feedback)

سے مراد حاصل کردہ معلومات کا تبادلہ ہے۔جب سیاسی نظام میں اس نظریے کو دیکھتے ہیں تو اسے ہم یوں بیان کرسکتے ہیں کہ معلومات کو منطقی بنیادوں پہ پرکھ کر ان پہ تبادلہ خیال کے ساتھ رائے دینا۔

یہ نظام سیاسی جماعتوں میں جو پیشہ ورانہ بنیادوں پہ کام کرتے ہیں ان کا باقائدہ حصہ ہوتا ہے۔سیاسی جماعتوں میں یہ ایک متحرک عمل ہے جس کے ذریعے نتائج اور ماحول کے بارے میں معلومات کا تبادلہ اور ان کی رو سے آراء میں متعلقہ افراد یا اداروں کی مدد لی جاتی ہے یا کارکنان آپس میں اپنے کام کے بارے میں تبادلہ خیال اور ایک دوسرے کو رائے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہونے والے کام کو معیاری بنانے کے لیے تبدیلی کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔

اس نظام

(feedback system)

کی وجہ سے سیاسی نظام کی صلاحیت وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ی کی جانب پرواز کرتی ہے البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہاں ہم سیاسی نظام کے مثبت فیڈ بیک پہ بات کررہے ہیں اس کا منفی پہلو بھی ہے اگر کبھی موقع ملے تو اس پہ ضرور کچھ تحریر کرنے کی کوشش کروں گا۔

عموماً تو یہ طریقہ کار بہت آسان لگتا ہے لیکن جماعتی نظام میں اس کے پروان چڑھنے میں کچھ وقت ضرور لگتا ہے جس کا دارومدار سیاسی جماعتوں کے طریقہ کار پہ ہوتا ہے۔طریقہ کار کی بات اس لیے کہ سیاسی جماعتیں نتائج سے زیادہ طریقہ کار پہ توجہ دیتے ہیں کیوں کہ انہیں اس بات کی جانکاری ہوتی ہے کہ طریقہ کار پہ انحصار کرنے والی جماعتوں کو جو نتائج حاصل ہوتے ہیں وہ دیرپاء ہوتے ہیں جب کہ ڈنڈی مارنے سے بھی بسا اوقات نتائج کا جلد حصول ممکن تو ہوتا ہے لیکن ان کی مدت انتہائی مختصرہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کا جو علاقہ ہوتا ہے جسے تحقیق کی رو سے”کائنات“ کہاجاتا ہے اس میں ایک مضبوط سیاسی ثقافت کی تعمیررہنماؤں کی اولین ترجیح ہوتی ہے کیوں کہ انہیں اس بات کی جانکاری ہوتی ہے کہ سیاسی ثقافت کو پروان چڑھانے سے سماج کی اچھی نشونماء ممکن ہوتی ہے جس کی رو سے کارکنان کے لیے اس کائنات میں مثبت ماحول پیدا ہوتا ہے اس قسم کے ماحول میں طریقہ کار سرچڑھ کر بولتا ہے جس سے کام میں تسلسل اور معیار پیدا ہوتا ہے۔کام کا یہ تسلسل اور اس کا معیاری پن کارکنان کی صلااحیتوں کو اجاگر کرتی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ جماعتی ساخت مضبوط خطوط پہ استوار ہوتی ہے بلکہ کارکنان کی حوصلہ افزائی کا ضامن بھی ہوتا ہے۔ بسا اوقات جماعتوں اور تنظیموں کو سیاسی میدان میں مشکلات بھی پیش آتی ہیں جن کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ایسا رجحان ان معاشروں میں شدت کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں جو استحصالی اثرات کا شکار ہوں یاسادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ نوآبادیاتی نظام اور روایتی نظام کا عکس پیش کرتے ہوں۔

لہذا ان اثرات سے جلد چھٹکارا پانا انتہائی مشکل امر ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی یا استحصالی نظام کے خلاف متحرک جماعتوں اور گروہوں میں اس کے اثرات مزید سرایت کرسکتے ہیں کیوں ایک ایسا معاشرہ جس میں استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کی جاررہی ہو تو اس میں قوت مخالف بھی متحرک رہتا ہے چوں کہ استحصالی قوتوں کے پاس وسائل چاہے وہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ان کی بھرمار ہوتی ہے اس لیے وہ زیادہ تندہی سے اپنے مخالفین پہ وار کرتے ہیں۔جب کہ اس کے برعکس استحصالی نظام سے گلوخلاصی کی جدوجہد کرنے والے وسائل کی کمی اور سماجی و سیاسی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس ایک مہلک ہتھیار ہوتا ہے جس سے قوت مخالف لرزاں رہتا ہے اور وہ ہے جدوجہد کرنے والوں کا طریقہ ہائے کار۔سیاسی عمل میں یہی وہ نظریہ(عمل کا طریقہ کار) ہے جس کا پروان چڑھنا کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔سیاسی نظام کے پورے دائرے کا جب ہم مشاہدہ کرتے ہیں تو اس میں فیڈبیک یعنی تبادلہ خیال اور اس پہ آراء کا نظام مقصد کی کامیابی کے لیے گرین سگنل دے رہاہوتا ہے یعنی راستہ یہی ہے لہذا اس راہ چلنا چاہیے۔کیوں کہ سیاسی جماعتوں میں کارکنان کے حوصلے بلند رکھنے اور کام کی جگہ سے زیادہ مثبت اور خوشگوار ماحول پیدا کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔

اگر سیاسی کارکنان آزادانہ طور پر جماعت یا تنظیم، اس کے ادارے، پروگرام، وقت و حالات کی مناسبت نظام کا طریقہ کار اور لیڈرشپ اور کارکنان کی صلاحیتوں، کردار اور کارکردگی کے بارے میں سوچتے اور اس کو بانٹتے ہیں تو، یہ ایک مثبت پیش رفت ہے بشرطیکہ سوچ کا معیار منطقی ہو جس میں مفصل دلائل کو اولیت حاصل ہے نہ کہ مفروضات وغیرہ۔انقلابی جماعتوں میں اس نظریہ

(Feedback system or Culture)

باہمی تبادلہ خیال کا نظا م یا ثقافت کا پروان چڑھنا یا چڑھانا بہت اہم ہے۔ جیسے ذکر ہوچکا ہے کہ وہ جماعتیں میں جو سماج میں کھلے بندھوں کام کرنے سے قاصر ہوں یا حد درجہ مشکلات کا شکار ہوں توایسی کائنات (سماج) میں سیاسی ترقی کی رفتار سست پڑجاتی ہے

جس کی وجہ سے کارکنان اکثر اوقات علم سیاست یا سیاسیات سے نابلد یا ان میں اس بابت علم و آگاہی کی کمی پائی جاتی ہے۔ایسی صورتحال میں اس نظام کو اجاگر کرنے کے لیے جماعت اور قیادت کو کردار ادا کرنا چاہیے۔

ویسے تو یہ اہم عنصر

(Feedback)

سیاسی جماعتوں کے ساتھ روز اول سے نتھی ہونا چاہے اور اگر جماعتیں اس جانب توجہ نہیں دینگے تو بھی یہ نظام وقوع پذیر ہوگا اور ارتقاء کے ایک اہم مرحلے پہ سیاسی نظام میں مکمل ثقافتی رنگ میں نمودار ہوگا۔دراصل یہیں وہ منزل ہے جہاں سے سیاسی ترقی کا عمل شروع ہوتا ہے۔اس سیاسی نظام میں جو استحصالی قوتوں کا مارا ہو یا روایتی طرز پہ مبنی ہوں، ایسے ماحول میں اولذکر اس نظام کا منفی پہلو سامنے آتا ہے جہاں باہمی تبادلوں کا نظام تو ہوتا ہے پر ان میں پروگرام، پالیسی وغیرہ سے زیادہ شخصیات کا تذکرہ دیکھنے کو ملتا ہے یا بات فقط مفروضوں تک محدود ہوتی ہے، جس کے منفی اثرات سماج پہ پڑتے ہیں کیوں پروگرام اور پالیسیوں کو پسِ پشت ڈال کر سماج کی رہنمائی ممکن ہی نہیں وہ ایک مختصر مدت کے لیے تو شخصیات اور مفروضات یا خیالی دنیا کی سحر کا شکار توہوسکتے ہیں پر جب پختگی آتی ہے تو سماج میں بسنے والے بالخصوص سیاسی کارکنان ازخود اس سحر سے نکلنے کی جدوجہد میں مگن ہوتے ہیں۔ان کی یہی کوشش انہیں بالآخر نظام اور اس کے طریقہ کار کی جانب گامزن کرتی ہیں۔

اگر ہم بلوچ سماج کا جائزہ لیں تو ہمارے ہاں

Feedback

کا نظام ناپید ہے اگر اس کی مثال ملتی بھی ہے تو وہ انتہائی چھوٹے پیمانے پہ جہاں کارکنان مستقل بنیادوں پہ اس عمل کی پیروی کرتے ہوں۔ البتہ عمومی طور پرہمارے ہاں خصوصی یا مستقل مجالس(جیسے: سینٹرل کمیٹی، مرکزی کیبنٹ، دمگ یا ہنکین کی میٹنگز وغیرہ) میں یہ سلسلہ کسی حد تک نظر آتا ہے۔دراصل یہ روایتی طریقہ کار کی جانب اشارہ ہے۔جس سے مراد کہ اس نظام میں ابھی تک یہ سیاسی ثقافت(فیڈ بیک سسٹم) غائب ہے۔ایسے حالات خصوصاً ان جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے جو گزشتہ دس، پندرہ سالوں سے اجتماعی مقاصد کے لیے جدوجہد کرہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here