پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوج تب ہوگی جب آئین کی پاسداری کرے گی۔
اپنی زیر صدارت پارٹی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹرز کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب میں سابق وزیر اعظم نے کہا: ’ہماری فوج کا بڑا حصہ آئین کی پاسداری کرتا ہے، صرف چند لوگ جنھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے باقی فوج کو بھی بدنام کرتے ہیں۔‘
نواز شریف نے کہا کہ جو آئین کی عزت نہیں کرتا اور اس سے باہر نکلتا ہے وہ اس کی کوئی عزت نہیں کرتے۔ ’باقی فوج کے لیے بھی بدنامی کا باعث یہ لوگ بنتے ہیں جو ہمیں منظور نہیں ہیں۔‘
ان کے مطابق ‘مجھے فوج کے چھوٹے اور بڑے تمام افسران عزیز ہیں لیکن وہ افسر مجھے پسند نہیں جو دھاندلی کرتے ہیں، جو الیکشن میں دھاندلی کرتے ہیں، جو ووٹ ایک بکسے سے نکال کر دوسرے بکسے میں ڈلواتے ہیں۔’
اجلاس سے خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ ‘آپ لوگ جیتے ہوئے تھے آپ کو ہرایا گیا ہے۔ آر ٹی ایس بند کر کے آپ کو ہرایا گیا، آپ کے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا۔
نواز شریف نے کہا کہ وہ عمران خان کے سلیکٹرز سے بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیوں اس کو عوام کے سر پر لا کر سوار کر دیا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’آپ نے بہت بڑی آئین شکنی ہے آپ نے، یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ آپ نے پاکستان کے مینڈیٹ کو چوری کیا ہے، بکسے چوری کر کے دوسروں کو جتوا دیا گیا، اتنی بڑی دھاندلی کی ہے۔‘
نواز شریف نے کہا کہ اس سب کے باوجود قبائلی اراکین، ایم کیو ایم اور چھوٹی جماعتوں کو ملا کو اور اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرنے کے بعد صرف چار ووٹوں سے عمران خان کو وزیراعظم بنوایا گیا۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ‘ہم ان کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں اس وقت تک کھڑے رہیں گے جب تک یہ ظلم ختم نہیں ہوتا۔’
سابق وزیر اعظم نے اپنے پارٹی رہنماو¿ں سے خطاب میں کہا کہ وہ یہ سوال 22 کروڑ عوام سے بھی پوچھتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ انھیں کون سا پاکستان اچھا لگتا ہے۔ 2017 کا پاکستان یا 2020 کا پاکستان؟ پرانا پاکستان اچھا لگتا ہے یا یہ نیا پاکستان؟
موجودہ نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ‘پاکستان کو کیا سے کیا بنا دیا گیا ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ‘اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کل سیدھی۔ آج کسی میدان میں بہتر کام ہو رہا ہے، کیا کسان، صنعت کار، مزدور، سرکاری افسر سکون کی نیند سوتا ہے۔’
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ اگر حالات یہاں تک پہنچ جائیں تو ہمارا چین سے بیٹھنا بہتر نہیں ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ‘آپ اراکین پارلیمان باشعور لوگ ہیں، آپ سوچتے تو ہوں گے کہ آئے روز یہاں کا نظام بدل دیا جاتا ہے۔ کسی بھی ادارے کو آئین کے مطابق چلنے نہیں دیا جاتا، کئی طاقتیں یہاں پر حاوی ہو جاتی ہیں۔‘
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ 2017 میں عوام کی خدمت کے دوران مجھے مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا گیا، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسا کیوں ہوا۔
تحریک انصاف فارن فنڈنگ اور پشاور بی آر ٹی سروس سمیت موجودہ حکومت کے مختلف منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ہمارے خلاف کیسز میں آئی ایس آئی اور دیگر ایجینسیوں کا نمائندہ بھی بیٹھ گیا تھا۔ ’
نواز شریف نے کہا ملک میں کبھی ایک نظام ہوتا کبھی دوسرا کبھی تیسرا۔ پاکستان کا آئین ہے لیکن آئیں کے مطابق عدلیہ پارلیمنٹ اور دوسرے اداروں کو نہیں چلنے دیا جاتا۔ ان کے مطابق آئین کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ ہم غلام بن کے نہیں رہ سکتے اگر ایسا ہوتا رہا ہے تو آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم پاکستان کو باوقار باعزت ملک بنائیں گے۔ اسکا وہی راستہ ہے جو میں نے اے پی سی میں دیا۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ‘آج ملک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ آج تک ملکی مسائل کی اصل جڑ کی تشخیص تک نہیں ہوئی یا اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ میں نے 20 ستمبر کو اے پی سی میں پاکستانی مسائل کی اصل وجوہات کا ذکر کیا تھا۔ آج بھی اگر ہم نے بات نہیں کرنی تو ہم اپنی نسلوں کو کیا دیں گے۔’
نواز شریف نے کہا کہ ہمیں بزدل آدمی کی ضرورت نہیں، تھوڑی سی بہادری اور جرات دکھانا ہو گی۔ ‘ہم جنگ جیتنے تک کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔’
نواز شریف نے سابق ڈی جی ایف آئی اے کا نام لے کر کہا کہ ‘بشیر میمن نے کل نیب کی اصل حقیقت کھول دی ہے۔‘
‘بشیر میمن کے مطابق عمران خان نے نواز شریف پر کرپشن، غداری اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا۔’ نواز شریف کے مطابق اس کے بعد پھر نیب کے ذریعے اقدامات کیے گئے۔ نیب کی ناانصافیاں اور ظلم سب کے سامنے ہے۔ ‘اب شہباز شریف کو پکڑ لیا ہے اس نے عوام کی خدمت کی ہے۔’
واضح رہے کہ بشیر میمن نے صحافی مطیع اللہ جان کو یوٹیوب پر دیے گئے ایک انٹرویو میں الزامات عائد کیے کہ عمران خان کی حکومت نے ان پر مسلم لیگ نواز کے رہنماو¿ں پر مقدمات درج کرنے سے متعلق کہا تھا، جس پر انھوں نے ایسا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کس قانون کے تحت یہ مقدمات درج کیے جا سکتے ہیں۔
نواز شریف نے تقریر کے دوران اس انٹرویو کے کچھ حصوں کی ریکارڈنگ بھی سنائی۔
نواز شریف نے اپنے خطاب میں یہ بھی دریافت کیا کہ ‘کیا میں صرف عمران خان کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراو¿ں یا اس کے اصل ذمہ داروں کی نشاندہی کروں ؟ اس کے بعد انھوں نے کہا ‘عمران خان کو لانے والو، یہ عوام کا جذبہ دیکھ لیں، یہ سوغات ہمیں نہیں چاہیے، اسے جتنی جلدی ہو لے جائیں۔ اس کی وجہ سے غریب کا چولہا بجھ گیا ہے۔’
انھوں نے کہا کہ چینی چوروں کو خود بھگا دیا گیا ہے، ادویات انتہائی مہنگی کر دی گئی ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ ‘جنھوں نے یہ کیفیت پیدا کی ہے، انہیں سلیکٹرز کو قوم کے سامنے آ کر اس کا جواب لینا ہو گا، آپ نے اس کا جواب لینے تک گھر نہیں جانا۔ اس کے بغیر پاکستان کا نظام نہیں چل سکتا، عدالتیں، کاروبار کچھ نہیں چل سکے گا۔
نواز شریف نے کہا کہ ‘ہم نے آپ سے اس کا حساب لینا ہے۔ آج معیشت منہ کے بل گر چکی ہے۔ بلین ٹری کا منصوبہ کہاں گیا۔ پشاور بی آر ٹی کی لاگت پنجاب کے تین میٹروز سے زیادہ ہے اور چینی چور عوام کا پیسہ لوٹ کر بھاگ گئے ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ‘مجھے تنخواہ پر نکالنے والے بتائیں گے کہ عمران خان بنی گالہ کی منی ٹریل کب دے گا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 کو نوازشریف کو اس وجہ سے نااہل قرار دیا تھا کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے قابل وصول تنخواہ کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
نواز شریف نے کہا کہ (سابق چیف جسٹس) ثاقب نثار نے عمران خان کو کلیئر تو کر دیا اب قوم ان سے رسیدیں مانگتی ہے کہ بنی گالا (گھر) کی منی ٹریل دی جائے، زمان پارک کے گھر کی تزئین و آرائش کی رسییدیں دیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘علیمہ خان کب رسیدیں دیں گی عاصم باجوہ کب رسیدیں دیں گے۔’
’عاصم باجوہ کی رسیدیں کب آئیں گی؟ نیب کی آنکھیں اس معاملے پر خاموش ہیں۔‘
نواز شریف نے کہا کہ ‘جس جج نے میرے خلاف فیصلہ دیااس کی عدالت سے کرنل کیوں برآمد ہوا۔’ ان کے مطابق یہ سپریم کورٹ نے کہا نواز شریف کے خلاف جج ارشد ملک کے فیصلے سے عدلیہ کا سر جھک گیا ہے۔ ‘جج کو معطل کر دیا گیا لیکن نواز شریف کے خلاف فیصلہ وہیں کا وہیں ہے اسے کیوں نہیں معطل کیا گیا۔’
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ نوازشریف کے خلاف غداری اور کرپشن کا مقدمہ بنایا گیا۔
نواز شریف نے اپنی تقریر کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے برطرف کیے گئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا وہ حصہ بھی سنایا جس میں انھوں نے آئی ایس آئی پر عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے سے متعلق الزامات عائد کیے۔
اپنی تقریر کے اختتام پر نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے بھی لگوائے۔