حیات بلوچ قتل: نصیر آباد کے کئی شہروں اور دیہاتوں میں مظاہرے

0
251

بلوچ یکجہتی کمیٹی نصیرآباد ڈویڑن کے زیر اہتمام حیات بلوچ کے قتل کیخلاف نصیر آباد ڈویڑن کے چھ چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں احتجاجی مظاہرے کیئے گئے اور ان کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔

جھٹ پٹ سے تعلق رکھنے والے کارکنان پریس کلب جھٹ پٹ پر جمع ہوکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نصیر آباد ڈویڑن کے کارکنان نے ڈیرہ مراد (ٹیمپل ڈیرہ) میں چھ بجے بلدیہ گراؤنڈ میں جمع ہوکر پیس واک کرتے ہوئے اللہ والا چوک نزدیک پریس کلب میں شعمیں روشن کیں۔

اْدھر منجھو شوری میں نوجوانوں نے بازار میں پیس واک کے بعد حیات بلوچ کی یاد میں شمعیں جلائیں۔

اسی طرح اوستہ محمد شہر میں بھی پرامن ریلی نکالی گئی اور یو بی ایل چوک پر حیات بلوچ کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔ جس میں سیاسی و سماجی، سول سوسائٹی اور دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

دریں اثناء ضلع صحبت پور شہر میں پبلک لائبریری نبی بخش کھوسہ سے پیس واک کے بعد حیات بلوچ کے اہل خانہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور حیات بلوچ کے لئے شمعیں روشن کی گئیں۔

دور افتادہ علاقہ شاہ پور میں بھی حیات بلوچ کے لئے نعرے بلند ہوئے۔ شاہ پور ایک دیہات ہے جہاں نوجوانوں نے کثیر تعداد میں شرکت کرکے حیات بلوچ کے اہل خانہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کی اور ان کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نصیر آباد ڈویڑن کے زیرِ اہتمام احتجاجی مظاہروں سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا حیات بلوچ کا دن دہاڑے قتل ایک غلطی نہیں بلکہ معتصبانہ رویہ کی کڑی ہے، اتفاق سے ایک گولی کا چل جانا سمجھ میں آتی ہے لیکن نہتے طالب علم حیات بلوچ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس کی جسم میں آٹھ گولیاں پیوست کرنا اتفاق نہیں محض نفرت کا جذبہ ہے جو 72 سالوں بلوچوں کے ساتھ کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچوں کو تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے کیونکہ تعلیم سے شعور آتا ہے۔ اپنے حقوق کا شعور، انسانی آزادیوں کا شعور۔ اسی شعور کو
روکنے کے سلسلے میں دن دہاڑے والدین کے سامنے حیات بلوچ کو شہید کیا گیا اور یہ پیغام دیا گیا کہ بلوچ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے سے پہلے آٹھ سو مرتبہ سوچیں۔ لیکن ہم اس سوچ اور ذہنیت والوں کو پیغام دینا چاپتے ہیں کہ اب بلوچ جاگ چکا ہے۔ اب بلوچ کو کسی بھی طریقے سے دبایا نہیں جاسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہید حیات بلوچ کے والدین کے ساتھ انصاف کیا جائے ناڑی کے باسی ظلم وبربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، چاہے برمش اور ملک ناز ہوں یا علاقائی سیاسی جاگیرداروں کی سیاسی انتقام ہوں ناڑی کے سیاسی سماجی، وکلاء طلبائکسان مزدور تنظیموں کے دوستوں صحافیوں اور شہریوں کی کثیر تعداد میں شرکت نے جاگیرداروں کو جھٹلا کر رکھ دیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here