مالاکنڈ میں عسکریت پسند گروہ البدر مجاہدین پھر سے فعال

0
337

پانچ فروری کو پاکستان میں جہاں سیاسی و سماجی تنظیموں نے حکومتی اعلان کے مطابق یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں جلسے اور جلسوں کا اہتمام کیا تھا وہیں مالاکنڈ ڈویژن کے علاقوں ثمر باغ، تیمرگرہ اور منڈا میں ہونے والے کچھ احتجاجی مظاہرے اس لیے توجہ کا مرکز بنے کیونکہ ان کا انتظام ایک ایسے جہادی گروپ نے کیا تھا جو کچھ عرصے سے غیرفعال تھا۔

البدر مجاہدین نامی گروپ کے تحت ہونے والے ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد شریک تھے۔

البدر مجاہدین نے ماضی میں انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں کئی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ امریکہ اور انڈیا نے اس پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت پابندی عائد کر رکھی ہے۔

پاکستان میں اس تنظیم کو غیرقانونی قرار نہیں دیا گیا ہے تاہم ان کی سرگرمیوں پر کئی برسوں سے غیراعلانیہ پابندی ہے۔

دیر کے علاقے میں البدر مجاہدین کے کارکن کافی بڑی تعداد میں موجود رہے ہیں تاہم کچھ برسوں سے ان کی سرگرمیاں محدود رہی تھیں اور گذشتہ دو، تین سال سے تو ان کے دفاتر بھی بند تھے۔

تیمرگرہ کے ایک مقامی تاجر نے بتایا کہ ‘البدر مجاہدین کی ریلی میں تین سے چار سو تک لوگ موجود تھے۔ جن میں سے کچھ نے فوجی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ ان لوگوں نے سفید رنگ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے جس پر کلمہ تحریر تھا۔

’یہ لوگ انڈیا کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ کلاشنکوفوں سے مسلح آٹھ سے دس لوگ میں نے خود دیکھے تھے۔’

ایک اور تاجر کا کہنا تھا کہ البدر مجاہدین کے لوگ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر سوار ہونے کے علاوہ پیدل بھی تھے۔

‘انھوں نے تیمر گرہ کے ریسٹ ہاو¿س چوک پر جو مرکزی بازار کے بالکل قریب ہے، جلسہ منعقد کیا جبکہ اس سے پہلے پورے بازار میں ریلی نکالی گئی۔’

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‘اس ریلی کے موقع پر پولیس اہلکار فرائض انجام دے رہے تھے جبکہ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں نے ٹریفک روک رکھا تھا۔‘

تاہم جب ان دعوو¿ں کے بارے میں اسسٹنٹ کمشنر تیمرگرہ لوئر دیر محمد شاہ جمیل خان سے بات کی گئی تو ان کا موقف تھا کہ پانچ فروری کو تیمرگرہ میں ایسا کوئی پروگرام نہیں ہوا جس میں مسلح لوگ شریک ہوں۔

انھوں نے کہا کہ ’پانچ فروری کو انتظامیہ اور حکومت کے زیرِ اہتمام یکجہتیِ کشمیر کے پروگرام منعقد ہوئے تھے، کسی تنظیم کے پروگرام نہیں ہوئے تھے۔ انتظامیہ کس طرح البدر مجاہدین کو اپنے پروگراموں میں شرکت کی اجازت دے دسکتی ہے۔ یہ ناممکن اور غلط بات ہے۔‘

شاہ جمیل خان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر جو ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں ان میں ہو سکتا ہے کہ انھوں نے کسی اور مقام پر پروگرام منعقد کر کے کہا ہو کہ یہ تیمرگرہ میں ہوا ہے۔‘

خیال رہے کہ البدر مجاہدین کے سپریم کمانڈر بخت زمین خان کا تعلق بھی دیر سے ہے تاہم وہ کافی عرصے سے فعال نہیں تھے تاہم تیمر گرہ اور ثمر باغ کے جلسوں میں وہ بھی دکھائی دیے۔

اس موقع پر انھوں نے اپنے خطابات میں کہا کہ وہ حکومت پاکستان کی جانب سے کشمیر سے یکجہتی کے اعلانات کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر یہ کافی نہیں ہے۔ ’حکومت کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھے، ہم بھی اس کا ساتھ دیں گے۔‘

بخت زمین خان کا کہنا تھا کہ ‘اقوام متحدہ کبھی بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں کرے گی بلکہ اس کے لیے جہاد کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔

کشمیر کی ریلی کے بعد البدر مجاہدین کی یہ حالیہ سرگرمیاں تیمرگرہ اور دیر میں موضوعِ بحث ہیں۔

ایک تاجر کے مطابق ‘اس ریلی کو دیکھ کر ایسے محسوس ہوا کہ نوے کی دہائی کا دور واپس آ گیا ہے جب لوگوں اور نوجوانوں کو سرعام جہاد اور مسلح تربیت لینے کی دعوت دی جاتی تھی۔’

اس ریلی کی تصاویر اور خبریں سامنے آنے کے بعد رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ پانچ فروی کو تیمرگرہ بازار میں البدر مجاہدین نے افغانستان اور کشمیر کو فتح کرنے کی ریہرسل کی تھی۔

انسانی حقوق کے کارکن یوسف جان سیفی کا کہنا تھا کہ ’کشمیر سے یکجہتی کے نام پر درجنوں شرپسند اسلحہ بردار تیمر گرہ بازار میں نکلے۔ ہم کسی کو بھی اپنے خطے میں امن وامان خراب کرنے اور دہشت گردی کے لیے اس سرزمین کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔‘

عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رہنما بشریٰ گوہر کا کہنا تھا کہ امن کی بات کرنے والے جیلوں میں پابند ہیں جبکہ دہشت گردی پھیلانے والوں کو خوف پھیلانے کی اجازت ہے۔

سابق سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد جماعت اسلامی پاکستان جن جہادی نوجوانوں کو مدد فراہم کر رہی تھی اور جو اس کے ساتھ منسلک تھے ان کو البدر مجاہدین کا نام دیا گیا تھا۔

یہ پاکستان بھر سے نوجوانوں کو افغانستان کے جہاد میں شرکت کے لیے بھرتی کیا کرتے تھے اور پشاور کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں ان کے مراکز موجود تھے۔

ملکی سطح پر البدر مجاہدین کا نام پہلی مرتبہ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں جہادی گروپوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہونے پر سنا گیا۔

اس موقع پر البدر مجاہدین نے اپنا وزن افغانستان کے جنگی کمانڈر اور سابق وزیراعظم انجینیئر گلبدین حکمت یار کے پلڑے میں ڈالا تھا جن کی تنظیم حزب اسلامی افغانستان میں ان پاکستانی نوجوانوں کے کیمپس یا مورچوں کا انتظام کرتی تھی۔

پاکستان کی سرحد کے قریب ہی افغانستان میں اس وقت گلبدین حکمت یار کے زیرِ اثر علاقے خوست میں البدر مجاہدین کا ایک بڑا مرکز تھا تاہم بعد میں وہ علاقہ اور مرکز افغان طالبان کے کنٹرول میں چلا گیا تھا۔

افغان جنگ کے بعد نوے کی دہائی میں ہی البدر مجاہدین نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں کئی بڑی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسی زمانے میں البدر مجاہدین نے کشمیر میں جہاد کے نام پر پاکستان سے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا جن میں سے کئی کی غائبانہ نماز جنازہ بھی بعد میں ادا کی گئی۔

نوے کی دہائی کے آخری برسوں میں جماعت اسلامی پاکستان اور البدر مجاہدین کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے تھے۔

اس میں اس وقت ایک بڑا موڑ آیا جب اس تنظیم کے کچھ نوجوانوں نے ایک تقریب میں جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی آمد پر احتجاجی نعرے لگائے تھے۔

اس کے بعد جماعت اسلامی پاکستان نے البدر مجاہدین کے ساتھ اپنا تعلق ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کر کے حزب المجاہدین پاکستان کے نام سے نئی تنظیم قائم کی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here