اختر مینگل کاتحریک انصاف کے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان

0
315

بدھ کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے صدر سردار اختر مینگل نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد سے اپنی جماعت کی علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سے حالیہ بجٹ اور بلوچستان کے مستقبل سے متعلق کئی سوال کیے ہیں۔

پارلیمان کے اجلاس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اپنی جماعت کی تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی کا باضابطہ طور پر اعلان کرتا ہوں، ہم پارلیمنٹ میں رہیں گے اور مسائل پر بات کرتے رہیں گے۔’

واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی چار نشستیں ہیں اور اس کی حکومت سے علیحدگی کے بعد حکمران جماعت کی عددی برتری میں کمی واقع ہوئی ہے۔

سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا جاتا ہے لیکن ان میں ہمیں کتنی فیصد عوام دوستی نظر آتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا ‘یہ بجٹ وزرا دوست ہو سکتا ہے، بیوروکریسی دوست ہو سکتا ہے، عسکریت دوست ہو سکتا ہے لیکن عوام دوست بجٹ آج تک نہ اس ملک میں آیا ہے اور نہ ہی کبھی آنے کے امکانات ہیں۔’

سردار اختر مینگل نے کہا کہ یہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب عوام کے حقیقی نمائندگی کا حق رکھنے والے فری اینڈ فیئر الیکشن کے تحت منتخب ہو کر آئیں۔

سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’اس ملک میں آج تک کسی کو انصاف نہیں ملا، کوڑیوں کے بھاو¿ یہاں انصاف بکا ہے اور اس کے خریدار بھی ہم ہی ہیں۔ ہم نے عوام کو مجبور کیا ہے کہ وہ انصاف لیں نہیں بلکہ اس کو خریدیں اور منڈیوں میں جس طرح انصاف بکتا ہے شاید ہی اس ملک کے علاوہ کہیں بکتا ہو۔‘

حکومت پر تنقید جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جس دن بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو پہلی صف بھری ہوتی ہے، بجٹ منظوری کے دن بھی صف بھری ہوتی ہے لیکن جب بجٹ تجاویز پیش کی جاتی ہیں تو خوردبین سے حکومتی اراکین کو ڈھونڈنا پڑتا ہے‘۔

قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے یہاں ایک روایت رہی ہے کہ ہر حکومت پچھلی حکومت کو قصور وار ٹھہراتی ہے، میں موجودہ حکومت کی بات نہیں کرتا، پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا، اس سے پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا ہوگا کہ یہ بدحال معیشت ہمیں ورثے میں ملی ہے، خالی خزانہ ہمیں ورثے میں ملا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ اس ورثے کے چکر میں چلتے جائیں تو بات 1947 تک پہنچ جائے گی کیونکہ ورثہ تو وہاں سے شروع ہوتا ہے، پھر تو آپ کہیں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں پاکستان خالی اور کھوکھلا کر کے دیا ہوا تھا‘۔

انھوں نے کہا کہ بجٹ میں کہا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی، ’یہ غلطی سے چھپا ہے یا زبان پھسل گئی ہے؟ نہیں، یہ ان کی پالیسی ہے اور اس پالیسی کے چرچے ہم کئی عرصے سے سن رہے ہیں‘۔

اختر مینگل نے کہا کہ ’میں اس ایوان کے توسط سے حکومت اور وزرا سے اس بات کی وضاحت چاہوں گا کہ یہ نظرثانی کس طرح کی جا رہی ہے، کیا یہ جو کہا جا رہا تھا کہ 18ویں ترمیم کو ختم کیا جائے گا، تو کیا یہ اسی کا حصہ ہے، یہ کس کی پالیسی ہے، حکومت کی پالیسی ہے، ان کے اتحادیوں کی پالیسی ہے یا کسی اور کی پالیسی ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کی رقم کو کم کردیا گیا ہے اور اس کے بدلے تمام صوبوں کو پیکیج دیے گئے ہیں لیکن بلوچستان کو صرف دس ارب کا پیکیج دیا گیا ہے۔

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پچھلے پی ایس ڈی پی میں جو بجٹ رکھا گیا تھا، ’اس سال اسے کورونا یا ٹڈی دل کھا گیا، یہ اسی طرح بلوچستان کو اپنے ساتھ چلائیں گے؟ یہی ہے بلوچستان کی اہمیت؟ یہی ہیں بلوچستان کی احساس محرومی کو ختم کرنے کے طریقے؟‘۔

سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’بجٹ سے پہلے چینی، آٹے، پیٹرول وار اشیائے خورونوش کا بحران تھا، امن و امان کا بحران تھا، لوگوں کی اپنے گھروں میں حفاظت کا بحران تھا لیکن اس کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ روزگار دینے کے بجائے روزگار چھینا جا رہا ہے‘۔

اگست 2018 میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور تحریک انصاف نے مرکز میں حکومت سے اتحاد کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔

اس یادداشت نامے کے تحت چھ نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کیا گیا جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کے لیے چھ فیصد کوٹے پر عملدرآمد، افغان مہاجرین کی فوری واپسی اور صوبے میں پانی کے بحران کے حل کے لیے ڈیم کا قیام شامل تھا۔

سنہ 2018 میں حکمران جماعت پی ٹی آئی اور بی این پی مینگل کے درمیان اس مفاہمتی معاہدے میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شامل تھے۔

مرکز میں اختر مینگل نے تحریک انصاف کی حکومت سے اتحاد کیا جبکہ صوبائی سطح پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ساتھ دیا۔

بی این پی نے تحریک انصاف کی حمایت کے بدلے کوئی وزارت یا معاون کا منصب نہیں لیا تھا لیکن وزیر اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے لیے تحریک انصاف کی حمایت کی تھی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں 5128 لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی تھی اور عمران خان کی حکومت کی مشروط حمایت کے لیے پیش کیے چھ نکات میں سے ایک نکتہ لاپتہ افراد کی واپسی بھی تھی۔

بلوچستان کی سیاسی جماعت بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے گذشتہ برس بھی بجٹ سے قبل حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور حکومتی پالیسیوں سے نالاں دکھائی دیے اور اس وقت بھی انھوں نے حکومت پر چھ نکاتی مفاہمتی معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ تاہم بعدازاں وزیر اعظم کے حکم پر ایک مرتبہ وزیر دفاع پرویز خٹک اور دوسری مرتبہ جہانگیر ترین کی قیادت میں حکومتی وفد نے بی این پی کے تحفظات دور کرنے کے لیے ملاقاتیں کی تھیں۔

رواں برس جنوری میں بھی وزیر قانون فروغ نسیم کی قیادت میں ایک حکومتی وفد کی سردار اختر مینگل سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بات انھوں نے میڈیا پر کہا تھا کہ حکومت اور ان کے درمیان مفاہمتی معاہدے خصوصاً لاپتہ افراد کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی ہے۔

رواں سال فروری میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا تھا کہ اس وقت تک 500 افراد گھروں کو واپس آچکے ہیں لیکن انھوں نے جو فہرست پیش کی تھی ’اس میں سے صرف اکا دکا ہی واپس آئے ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اس ملک کی یہ ہی روایت ہے کہ جب کوئی کام یاد آتا ہے تو پھر ضرورت پڑتی ہے، رواں مالی سال کے بجٹ سیشن کے وقت 450 افراد واپس آئے اس کے بعد 52 افراد رہا ہوئے ہیں۔’

اس سے قبل بھی اختر مینگل کی جانب نے حمایت واپس لینے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد یہ فیصلہ موخر کردیا گیا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کی پاکستان کی قومی اسمبلی میں چار نشیتں ہیں۔

قومی اسمبلی کے ایوان کی کل نشتیں 341 ہیں جبکہ حال ہی میں ایک رکن اسمبلی منیر اورکزئی کے انتقال کے بعد اس وقت اراکین کی تعداد 340 ہے۔

کسی بھی جماعت کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے 172 نشتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

بی این پی مینگل کے پی ٹی آئی کے حکومتی اتحاد سے نکلنے سے قبل تک حکمران جماعت کی 156 نشتوں کے علاوہ اتحادیوں کو ملا کر حکومت کے پاس کل تعداد 186 تھی۔

بی این پی مینگل کی چار اراکین کے حکومتی اتحاد سے نکلنے کے بعد تحریک انصاف کے حکمراں اتحاد کے پاس کل 182 سیٹیں ہیں جو کہ حکومت بنانے کے لیے درکار اکثریت سے اب بھی 10 نشستیں زیادہ ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here