بھارت کی سپریم کورٹ نے بدھ کو مبینہ بلڈوزر جسٹس کے خلاف سخت فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ انتظامیہ عدلیہ کی جگہ نہیں لے سکتی۔
واضح رہے کہ بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں گزشتہ کچھ برسوں سے یہ چلن ایک عام بات ہے کہ جیسے ہی کسی شخص کے بارے میں جرم کرنے کی کوئی خبر آتی ہیں، تو مقامی حکام پہلی فرصت میں اس کے مکان کو نشانہ بناتے ہیں اور جائیدادیں منہدم کر دی جاتی ہیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ سر پر چھت دستور کی دفعہ 21 کے تحت بنیادی حق ہے اور کسی کے گھر یا دکان کو محض اس لیے مسمار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی معاملے میں ملزم یا مجرم ہے۔
جسٹس بی آر گوَئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن پر مشتمل بینچ نے مدھیہ پردیش اور راجستھان سے تعلق رکھنے والے دو افراد کی رٹ پٹیشن پر سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ ان دونوں افراد کے مکان مسمار کردیے گئے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن فار سول رائٹس (اے پی سی آر) نے اسی معاملے میں مدھیہ پردیش کے شہر جاورا سے تعلق رکھنے والے محمد حسنین اور راجستھان کے شہر ادے پور کے راشد خان کی جانب سے انٹروینشن رٹ پٹیشن داخل کی تھی۔
عدالت نے اس پر سماعت کے بعد فیصلہ سنایا ہے۔
حالیہ برسوں میں متعدد ریاستوں میں لوگوں کے مکانات اور دکانیں مبینہ ناجائز قبضہ کی بنیاد پر منہدم کی گئی ہیں۔ اس کا آغاز اُتر پردیش سے ہوا تھا۔ اس انہدامی کارروائی کو ’بلڈوزر جسٹس‘ بھی کہا جاتا ہے۔
حکومت اور انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اُن عمارتوں کو مسمار کیا جاتا ہے جو ناجائز طریقے سے بنائی گئی ہیں اور ان کے خلاف میونسپل کارپوریشن کارروائی کرتی ہے۔
لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر کہیں کوئی تشدد ہو گیا تو انتظامیہ کی جانب سے یہ کہہ کر متاثرین کے مکانات مسمار کر دیے جاتے ہیں کہ ان کی تعمیر ناجائز طریقے سے ہوئی ہے۔
بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ انتظامیہ جج نہیں بن سکتی اور یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کون قصور وار ہے اور کون نہیں۔ ایسا کرنا اپنی حدود سے تجاوز اور غیر قانونی ہے۔
عدالت کے مطابق سنگین جرائم کے ملزموں اور مجرموں کے خلاف بھی ضابطے کی پابندی کے بغیر بلڈوزر کی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
عدالت نے کہا کہ یہ رویہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کے اہل کار من مانی نہیں کر سکتے۔ ایسے اہل کاروں کو بخشا نہیں جا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اہل کاروں کو جواب دہ بنایا جائے گا اور ان سے معاوضہ وصول کیا جائے گا۔
جسٹس بی آر گوئی نے کہا کہ کسی کا گھر اس کی امید ہوتی ہے۔ اس کا خواب ہوتا کہ اس کے سر سے چھت کبھی نہ چھینی جائے۔ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا انتظامیہ ایسے شخص کا گھر گرا سکتی ہے جس پر کسی جرم میں ملوث ہونے کا الزام ہے؟ اس کا فیصلہ عدلیہ کرے گی کہ الزامات میں کتنی سچائی ہے۔
بینچ کے مطابق یہ دیکھنا افسوس ناک ہے کہ عورتوں، بچوں اور معمر افراد کو راتوں رات گھسیٹ کر سڑک پر پہنچا دیا جائے۔ اگر انتظامی اہل کار کچھ وقت کے لیے اپنا ہاتھ روک لیں تو آسمان سر پر نہیں گر جائے گا۔
عدالت نے مزید کہا کہ جب کسی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے اچانک منتخب کیا جاتا ہے لیکن اسی نوعیت کی دیگر عمارتوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس کا یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ اصل مقصد غیر قانونی عمارت کا انہدام نہیں بلکہ بغیر ٹرائل کے سزا دینا ہے۔
واضح رہے کہ اترپردیش کے شہروں پریاگ راج (الہ آباد)، کانپور، علی گڑھ اور مدھیہ پردیش، راجستھان اور مہاراشٹر سمیت متعدد ریاستوں میں کسی احتجاج میں شرکت کرنے والوں یا پولیس کے ساتھ تصادم میں شامل رہنے والوں کے مکانات منہدم کیے گئے ہیں۔ ان متاثرین میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔
البتہ عدالت نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ ہدایات کسی عوامی جگہ پر ناجائز قبضے پر نافذ نہیں ہوں گی۔
عدالت نے دستور کی دفعہ 142 کے تحت اپنے اختیارِ خصوصی کا استعمال کرتے ہوئے انہدامی کارروائی کے لیے رہنما ہدایات جاری کی ہیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے عوامی جگہ پر ناجائز قبضہ کرکے گھر یا دکان کی تعمیر کی ہے تو اسے پیشگی نوٹس دیا جائے اور اس سے 15 دنوں کے اندر جواب مانگا جائے۔
مزید یہ کہ نوٹس رجسٹرڈ پوسٹ سے بھیجا جائے اور عمارت کے بیرونی حصے پر چسپاں بھی کیا جائے۔ اس میں غیر قانونی تعمیرات اور قانونی خلاف ورزی کی تفصیلات ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ انہدام کس بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ انہدامی کارروائی کی ویڈیو گرافی کی جائے۔ رہنما ہدایات کی خلاف ورزی توہینِ عدالت مانی جائے گی۔