سوئٹرز لینڈ کے شہر جنیوا میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم ) کے زیر اہتمام پانچویں بلوچستان انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران، پیس فار ایشیا کی نمائندہ اینہیلینا نے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے بحران سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔
’’ آج، ہم بلوچستان کے لوگوں کو درپیش منظم ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں اور استحصال کی طرف توجہ دلانے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جو قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے لیکن اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔‘‘
انھوں نے نشاندہی کی کہ پانچ دہائیوں سے سوئی گیس فیلڈز کا استحصال کیا جا رہا ہے، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہر اس وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں، جبکہ سوئی کی مقامی آبادی اس وسائل تک رسائی سے محروم ہے۔ یہ بلوچ عوام کو درپیش معاشی ناانصافیوں کی ایک مثال ہے۔
انہیلینا نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ منصوبہ ترقی لانے کے بجائے جبر کا باعث بنا ہے۔ سی پیک کو محفوظ بنانے کے بہانے بلوچستان میں فوج کی تعیناتی ، زمینوں پر قبضے، نقل مکانی، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے عالمی برادری ست بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات پر زور دیتے ہوئے کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بلوچ عوام کے حق خودارادیت کی حمایت اور ان کی آواز کو سننے کو یقینی بنانے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
اپنے خطاب کے اختتام پر، انھوں نے کہا، ” استحصال ، جبر اور بلوچ قوم کی جدوجہد آزادی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم بلوچستان کے لیے انصاف، وقار اور ان کی خود ارادیت کے لیے کام کریں۔
کانفرنس کا مقصد بلوچستان کے بحران کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور بین الاقوامی سطح پر بلوچ عوام کے حقوق کی وکالت تھا۔