بلوچ راجی مچی کیخلاف ریاستی کریک ڈائون جاری، بی ایس او چیئرمین سمیت مزید 5افراد لاپتہ،درجنوں گرفتار

0
52

بلوچستان کے ساحلی شہر وسی پیک مرکز گوادرمیں 28 جولائی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام منعقدہ بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) کیخلاف ریاستی کریک ڈائون جاری ہے اور مکمل طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے ۔

اس سلسلے میں کراچی میں پہلے سے بی وائی سی کے 5 کارکنان کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے ۔

راجی مچی کو روکنے کیلئے ریاست مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے ۔بلوچستا ن ، کراچی و ڈی جی خان میں و ٹرانسپورٹرز ، پاورچیزسمیت عوام کو دھمکایا جارہا ہے کہ وہ مچی میں شرکت نہ کریں ۔

اب تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ کوئٹہ سے فورسز و خفیہ ادارواں نے بلوچ راجی مچی کے آرگنائزر سمیت 5 افراد کو حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

بلوچ راجی مچی کی تیاریوں میں مصروف بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین جیئند بلوچ اور انکے ساتھی شیرباز بلوچ سمیت 5 افراد کو فورسز و خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

جیئند بلوچ سمیت انکے ساتھیوں کی حراست میں لئے جانے کی تصدیق انکے پارٹی رہنماؤں نے کردی ہے جبکہ دیگر 3 لاپتہ افراد کے شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے۔

تنظیم کے مطابق انکے چیئرمین و دیگر ساتھی بلوچ راجی مچی جلسے کے سلسلے میں آرگنائزر کا کام کررہے تھے۔

علاوہ ازیں ضلع قلات سے اطلاعات ہیں کہ کے تحصیل منگچر میں ڈپٹی کمشنر قلات کے خصوصی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر منگچر نے مختلف کلیوں میں چھاپے مار کر لوگوں کو گرفتار کررہے ہیں۔

گرفتار افراد میں امان اللہ لانگو، عبدالاحد لانگو، ابرار احمد لانگو کو لیویز تھانہ منتقل کیا گیا ہے ، مزید گرفتاریوں کی اطلاعات تاہم ان کی تصدیق ہونا باقی ہے۔

دارالحکومت کوئٹہ میں لوڑ کاریز سے ،شعیب جتک، مبارک جتک، اسامہ جتک کو حراست میں لیکر پولیس تھانہ منتقل کردیا گیا۔

جبکہ ایک ڈرائیور ستار قمبرانی نامی شخص کو گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

وہاں ساحلی شہر سے بھی گرفتاریوں کی اطلاعات آرہے ہیں ، تاہم مواصلاتی نظام بند ہونے کی وجہ سے مزید تفصلات سامنے نہیں آئے ہیں۔

واضح رہے ابتک بلوچستان کے مختلف علاقوں سے درجنوں بلوچ یکجہتی کمیٹی رہنماؤں اور رضاکاروں کو پاکستانی فورسز خفیہ اداروں اور پولیس کی جانب سے حراست میں لئے جانے کے اطلاعات ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی بند کردئے گئے ہیں۔

اس سے قبل کٹھ پتلی وزیر اعلی سرفراز بگٹی اور بلوچستان پولیس نے جلسے کو روکنے کے لئے طاقت کے استعمال کا اعلان کیا تھا جبکہ مختلف علاقوں میں راجی مچی میں شرکت کرنے والے قافلوں میں اور شاہراؤں کو بند کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جلسے کے پرامن شرکاء پر ریاستی طاقت کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے اگر شرکاء کو کچھ نقصان ہوا ذمہ داری انتظامیہ اوربلوچستان حکومت پر ہوگی اور انہوں نے اپنے لاپتہ ساتھیوں کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here