بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاج کو 5520  دن مکمل

0
42

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5520  کی دن ہو گئے۔

احتجاجی کیمپ میں جبری لاپتہ طالبعلم رہنما ذاکر مجید اور راشد حسین کے والدہ بیٹھے رہے۔

سبی سے سیاسی اور سماجی کارکنان مولا داد بلوچ، شہباز خان بلوچ اور دیگر نے کیمپ آخر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ فرزندوں کے جبری اغوا لاپتہ افراد کے حراستی شہادت کے معاملے پر کام کرنے والی تنظیم نے مکمل اور جامع رپورٹ جاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارون  سے بلوچستان میں فوری مداخلت کی اپیل کردی ہے بلوچستان میں فوری آگ اور خون اداروں سے بلوچستان میں فوری مداخلت کی ہوئی ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہزاروں لوگوں کو جبری لاپتہ جبکہ ہزاروں بلوچوں کے تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے طول عرض سے برآمد ہوئی ہیں ۔ بلوچ جبری لاپتہ افراد کا حراستی قتل نادانستہ یا سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ جبری لاپتہ کے المفاقیہ نہیں بلکہ ایک ان حراستی شہادت کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ان واقعات میں پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں نیم فوجی ادارے پاکستانی پارلیمنٹ اور دیگر ملوث ہیں ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ حراستی شہادت کا نشانہ بننے والی جو لاشیں شناخت ہو کر تدفین کر دی گئیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد کے ہم تھے پیروں پر ہتھکڑیوں سے جھکڑنے کے نشانات کے ساتھ ساتھ سگریٹ سے جلانے کے داغ اب ڈالنے کے آنکھوں پر بے خوابی کے علامات اگوں پر بجلی کے کرنٹ اور جسم کے حساس عضو پر تیزاب ) واضح شوالہ موجود تھے۔ بلوچ لاپتہ افراد کی لاشیں پڑ ھلتی ہیں جنہیں پولیس یا پھر مقامی لیویز اپنے تحویل میں لیکر شہادت کے تمام شواہد مٹا کر انہیں ہسپتالوں کے مردہ خانے میں پہنچاتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستانی فوج اور ان کی انٹیلی ایجنسیاں بلوچ لاپتہ افراد کو شہید کرنے کے بعد اپنے ذیلی اداروں کو اطلاع کرتے ہیں کہ بلوچ شہیدوں کا رازہ کسی کے تبھی پوشیدہ نہیں ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here