بلوچستان کے علاقے حب سے نوجوان کا اغوا و جعلی مقابلے میں قتل کے بعد لواحقین نے کراچی پولیس کیخلاف احتجاجاًروڈ بلاک کردیا۔
کراچی پولیس کی حب کے نواحی علاقہ ساکران سے یوسی وائس چیئرمین کے بھانجے کی اغوا نما گرفتاری کے بعد جعلی پولیس مقابلے میں قتل کی واردات کے خلاف اہل علاقہ اور جام گروپ کے کارکنان ورہنما سراپا احتجاج ہیں۔
کراچی پولیس کی بلوچستان کے شہریوں کے ساتھ زیادتیوں اور لوٹ مار کے واقعات کے بعد اب اٹھا کرمبینہ جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کے واقعات سے اہل علاقہ نے ساکران تھانہ کے سامنے احتجاجاً سڑک بلاک کردیا۔
گزشتہ روز ساکران کے اہل علاقہ اور جام گروپ کے سیاسی کارکنان ورہنماؤں نے احتجاجاً ماموں ہوٹل کے مقام پر ساکران تھانہ کے سامنے سڑک بلاک کر کے احتجاج کیا۔
اس موقع پر مظاہرین سے خطاب میں جام گروپ کے رہنما وائس چیئرمین یوسی 31ساکران وڈیرہ غلام نبی محمد حسنی اور عبدالمالک موندرہ و دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ 7مئی کی شام کو وڈیرہ غلام نبی محمد حسنی وائس چیئرمین یوسی 31ساکران کے گوٹھ سے زمین پر موجود انکے بھانجے غلام رسول محمد حسنی کو دو کار گاڑیوں اور ایک موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے اغوا کر لیا اور اپنے ہمراہ لے گئے ۔
مقررین کے مطابق وہاں موجود ایک عمر رسیدہ ہاری سے اسکا موبائل فون بھی چھین لیا گیا مذکورہ شخص کے مطابق اغوا کار خود کو کراچی پولیس اہلکار بتارہے تھے تاہم واقعہ کی اطلاع ملنے پر جب وڈیرہ غلام نبی محمد حسنی اور اہل علاقہ ساکران تھانہ پہنچنے اور SHOساکران کو بتایا تو انھوں نے اس حوالے سے اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کی کسی بھی قسم کی مدد سے انکار کردیا بعدازاں 10مئی کی شام کو وڈیرہ غلام نبی محمد حسنی کو اطلاع ملی کہ انکے بھانجے غلام رسول محمد حسنی کی لاش ایدھی سرد خانے سہراب گوٹھ کراچی میں رکھی ہوئی ہے جس پر انھوں نے وہاں سے لاش وصول کی او ر معلومات کرنے پر بتایا گیا کہ کراچی کے پاکستان بازار تھانہ کی حدود میں پولیس کی اسنیپ چیکنگ کے دوران مسروقہ موٹر سائیکل کے ہمراہ شخص کو رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن وہ نہ رکا جس پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں غلام رسول محمد حسنی نامی شخص مارا گیا ۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ مذکورہ کارروائی اغوا نما گرفتاری ہے اور ایک جعلی پولیس مقابلے میں مقتول غلام رسول محمد حسنی کو کراچی پولیس نے قتل کیا ہے ۔
مظاہرین کے مطابق لاش کی تدفین کے بعد جب وہ واپس ساکران تھانے پہنچے اور SHOکو کاروائی کیلئے کہا تو SHOساکران متاثرین کی بات سننے کے بجائے ان پر چڑھائی کرنے لگے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ جب تک مقتول گلام رسول محمد حسنی کے قتل کا مقدمہ SHOساکران اور SHOپاکستان بازار کراچی کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمات درج نہیں کئے جاتے تب تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
مظاہرین کا مزید کہنا تھا کہ کراچی پولیس غنڈہ گری پر اتر آئی ہے اور بلوچستان کے لوگوں کو لاوارث سمجھ کر اغوا کے بعد قتل کررہی ہے جبکہ ساکران پولیس اپنی نااہلی کی وجہ سے نہ تو علاقے میںامن وامان قائم رکھ رہی ہے اور نہ ہی علاقے کے عوام کے تحفظ کو یقینی بنارہی ہے SHOساکران کا سلوک انتہائی ناروا ہے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ SHOساکران پولیس کو فوری طور پر انکے عہدے سے ہٹا کر معطل کیا جائے اور انکے ساتھ SHOپاکستان بازار تھانہ کراچی کے خلاف مقتول غلام رسول محمد حسنی کے قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔
واضح رہے کہ کراچی پولیس کی جانب سے بلوچستان کے لوگوں کیلئے کراچی کی حدود کو نوگوایریا بنانے کے بعد اب بلوچستان کی حدود میں لوگوں کو اٹھا کر قتل بھی کیا جانے لگا ہے۔
قبل ازیں کراچی میں یوسف گوٹھ انٹر بس ٹرمینل اور شیر شاہ کے علاقے میں اندرون بلوچستان سے کراچی آنے والے لوگوں کو شارٹ ٹائم اغوا برائے تاوان کی غرض سے اٹھا کر انہیں انکی جمع پونجی سے محروم کرنے کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔
مزید برآں مذکورہ واقعہ کے خلاف اہل علاقہ کے احتجاج دوران پولیس افسران کے مظاہرین سے مذاکرات کئے جس پر مظاہرین نے دو دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے اپنا احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ نئے ایس پی حب کی پیر کے روز آمد کے بعد انکے سامنے اپنے مطالبات رکھنے پر اگر کاروائی ہوئی تو ٹھیک ورنہ وہ پھر سے احتجاج کرینگے۔