بھارت کی سب سے گنجان آباد ریاست اتر پردیش میں مدرسوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔
بھارت میں مسلم ماہرین تعلیم ایک حالیہ عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس کے تحت ملک کی سب سے گنجان آباد ریاست میں ہزاروں دینی مدارس کو مؤثر طریقے سے بند کر دیا جائے گا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے 22 مارچ کے اپنے فیصلے میں، اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ یہ بھارت کے آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی ہے۔ اس نے حکم دیا کہ اتر پردیش میں اسلامی اسکول کے تمام طلباء کو “باقاعدہ” اسکولوں میں منتقل کیا جائے۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی، یا بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے مسلم کمیونٹی کے طلباء کو جدید مین اسٹریم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم ہو گا اور مسلم معاشرے کو فائدہ پہنچے گا۔
لیکن مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں برسوں کی ان اصلاحات کو نظر انداز کیا گیا ہے جنہوں نے بھارت کے مدارس کو جدید بنا دیا ہے اور ان میں قومی سطح پر منظور شدہ نصاب متعارف کرایا ہے، جن میں فزکس، کیمسٹری، ریاضی، کمپیوٹر پروگرامنگ اور سوشل سائنس جیسے مضامین شامل ہیں۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفر الاسلام خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا، “ یہ عدالتی حکم بھارتی آئین کے آرٹیکل 29 اور 30 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو مذہبی اقلیتوں کو اپنی مرضی کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “مسلمانوں نے جدید مدارس کا دل و جان سے خیرمقدم کیا، اور ہم نے ان مدارس سے تعلیم یافتہ طلباء کو سرکاری ملازم، سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے جدید شعبوں کے ماہر بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے باوجود حکام مسلم کمیونٹی کی خواہشات اور مفادات کے خلاف تمام مدارس کو بند کر رہے ہیں۔”
عدالتی حکم سے بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن کے تسلیم شدہ لگ بھگ 16,500 مدارس، ان کے ایک کروڑ 95 لاکھ طلبا اور ایک لاکھ اساتذہ متاثر ہوں گے۔ ان میں متعدد غیر مسلم طالب علم شامل ہیں جن میں سے بیشتر ہندو ہیں۔
مدرسے کے اساتذہ نے کہا کہ اس فیصلے کا اثر آخر کار یوپی کے تمام 25,000 تسلیم شدہ اور غیر تسلیم شدہ مدارس پر پڑے گا، جہاں 27 لاکھ طلباء کو ایک لاکھ 40 ہزار اساتذہ پڑھاتے ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا، “سپریم کورٹ نے بار بار جدید مضامین کے ساتھ جدید تعلیم پر زور دیا ہے، ایک ایسی تعلیم جو عالمگیر نوعیت کی ہو، جو ایک بچے کو اپنا مستقبل روشن بنانے اور اس ملک کو آگے لے جانے کے لیے تیار کرتی ہے۔”
عدالت نے کہا کہ مدرسہ ایکٹ کے تحت مدارس کا نصاب “یقینی طور پر” اس نصاب کے مساوی نہیں ہے جو مرکزی دھارے کے اسکولوں میں طلباء کو پڑھایا جاتا ہے اور اس لیے مدارس میں دی جانے والی تعلیم نہ تو “معیاری” ہے اور نہ ہی “عالمگیر” نوعیت کی ہے۔