چمن میں 5 مہینوں سے جاری دھرنے پر ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری

0
101

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بلوچستان کے علاقے چمن میں گذشتہ پانچ ماہ سے جاری دھرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تاجر برادری اور مزدوروں کے تحفظات دُور کرنے کی سفارش کی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس نگراں حکومت نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کو لازمی قرار دیا تھا۔

نگراں حکومت کے اس فیصلے کے خلاف گزشتہ سال 21 اکتوبر سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی مقام ’باب دوستی‘ کی جانب جانے والی سڑک پر چمن کے مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور سیاسی جماعتوں نے احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے۔

منگل کو ایچ آر سی پی نے اس حوالے سے ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کی ہے جس میں حکومت کو متاثرہ فریقوں سے رابطے کی سفارش کر کے مقامی تاجروں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنےکے لیے کہا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو سرحدی پابندیوں کے اثرات کے پیشِ نظر پالیسی بناتے وقت انسانی ہمدردی کے تحفظات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی جائز ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے۔

ایچ آر سی پی کی ایک ٹیم نے چمن میں حقائق تلاش کرنے کے مشن کی قیادت کی۔

اس مشن میں ایچ آر سی پی بلوچستان کے وائس چیئرمین کاشف پانیزئی اسٹاف ممبر فرید احمد اور اراکین شمس الملک مندوخیل اور عبدالمنان شامل تھے۔

دھرنے میں شریک بیش تر افراد مقامی مزدور ہیں جو سرحد کے دونوں جانب کاندھوں پر سامان لاد کر لاتے اور لے جاتے ہیں جنہیں ’لغڑی‘ کہا جاتا ہے۔

لغڑیوں کو پہلے حکومت نے سامان سرحد پار لے جانے اور لانے کی اجازت دی تھی۔ تاہم اب ان کے لیے بھی پاسپورٹ اور ویزے کی شرائط لازمی قرار دی گئی ہے۔

سرحد پر کاروبار سے وابستہ مزدوروں کی تعداد 20 سے 25 ہزار بتائی جاتی ہے جن میں اکثریت کا تعلق سرحدی اضلاع چمن اور قلعہ عبداللہ سے ہے۔

سرحد پار افغانستان کے صوبہ قندھار کے سرحدی ضلع اسپن بولدک کے بھی چند ہزار لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here