پاکستان میں پارلیمانی انتخابات اور ما بعد انتخابات کا منظر نامہ اور بلوچستان میں تحریک آزادی پر اس کے اثرات

0
422

تحریر: رحیم بلوچ ایڈووکیٹ ، بانی سیکریٹری جنرل بلوچ نیشنل موومنٹ

8 فروری 2024 کو پاکستان میں ایک بار پھر پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے عام انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا مگر یہ ڈرامہ بُری طرح سے ناکام اور رسوا ہوا۔ مسلم لیگ نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سوا سب سیاسی جماعتیں اس الیکشن میں فوج، الیکشن کمیشن اور عدلیہ پر کُھلی دھاندلی کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ حقیقت پسندی سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ووٹ کی چوری اور بے توقیری نئی بات نہیں ہے۔ حسب سابق الیکشن سے بہت پہلے، الیکشن کے دن اور اس کے بعد بھی دھاندلی کا عمل جاری رکھا گیا۔

فوج، نیب اور عدلیہ کی طرف سے ماضی میں چور، ڈاکو، بدعنوان اور سسلی مافیہ سے تشبیہہ دیئے گئے سزا یافتہ میاں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے نعرے کے ساتھ پورے پروٹوکول کے ساتھ لندن سے پاکستان واپس آیا۔ عدلیہ کا نمائندہ عدالتی رجسٹر لے کر ہوائی اڈے پر میاں صاحب کی حاضری لگادی۔ نواز شریف کے خلاف فیصلہ شدہ مقدمات کو اعلیٰ عدلیہ بڑی تیزی سے راتوں رات دوبارہ کھولتا، سنتا اورسزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے الزامت سے بری کرتا رہا یعنی اپنا تھوک چاٹتا گیا۔

نواز شریف بھی حسب سابق قلابازی کھاتے ہوئے “ووٹ کو عزت دو” کے بجائے “بوٹ کو عزت دو” کے رستے پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ چل پڑا اور لاڈلے کا درجہ حاصل کر گیا۔ دوسری جانب میاں نواز شریف کے مد مقابل سابق وزیر اعظم عمران خان اور اس کی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات بنانے کی مشینری کو پوری طرح متحرک کرکے پارٹی کی قیادت، کیڈرز اور کارکنوں کو جیلوں میں ڈھونسنا شروع کیا گیا۔ عدلیہ کی مدد سے پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان بھی چھینا گیا تاکہ بچے کھچے ارکان میں سے جو کوئی جیت بھی جائیں تو پارٹی ڈسپلن اور قانونی بندشوں سے آزاد رہیں اور فوج جدھر چاہے آسانی کے ساتھ انھیں اُدھر ہانکتا رہے۔

سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر آئی ایس آئی کی سوشل میڈیا بریگیڈ کے ارکان بشریٰ بی بی کے ساتھ عمران خان کے نکاح کو غیر شرعی قرار دینے سمیت اس کی ماضی کے معاشقوں اور پلے بوائے لائف اسٹائل کے سچے اور جھوٹے قصوں کا مہم ایسے شروع کیا جیسے موصوف کی ذاتی طرز زندگی کے بارے میں پہلی بار انھیں پتہ چلا ہو۔ ویسے پاکستانی سیاست میں کسی لیڈر کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھالنے کا رسم بہت پرانا ہے بالخصوص پنجابی سیاست، اخلاقیات و ثقافت میں اس کم طرفی کو شاید معیوب ہی نہیں سمجھا جاتا ہے۔

بشریٰ بی بی کے ساتھ مبینہ عدت سے قبل نکاح کے مقدمہ سمیت یکے بعد دیگرے تین مقدمات میں عمران خان کو الیکشن تھیٹر لگنے سے چند دن قبل عدلیہ سے سزا دلوا کر اس کے حامیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان کی سیاست اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ مُعلق پارلیمان کے دلدادہ فوج اور خفیہ اداروں نے اپنے مہروں کو پی پی پی اور مسلم لیگ نواز میں اس طرح بانٹے کہ کوئی بھی جماعت دو تہائی اکثریت تو کجا سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پائے اس طرح ایک بار پھر معلق پارلیمنٹ اور مخلوط حکومت بن جائے تاکہ فوج اور خفیہ ادارے کسی خطرہ اور مشکل کے بغیر اسے اپنے مرضی کا ناچ نچاسکیں۔ تاہم کنگ پارٹی کا قرعہ مسلم لیگ نواز کے حصے میں نکالا گیا تھا اور پی پی پی کو اس کی سپورٹ میں لانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

مقبوضہ بلوچستان میں فوج اور انٹیلی جنس نے ڈرگ مافیہ اور ڈیتھ اسکواڈز سے منسلک اپنے کارندوں اور دوسرے کچھ مہروں کو پی پی پی میں ہانک دیئے اور چند دلالوں کو مسلم لیگ کے یتیم خانہ میں ڈالے اور باقیوں کو آزاد امیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں اُترنے کیلئے چھوڑ دیئے۔ دھاندلی کے منصوبے پر بلا روک ٹوک عملدرامد کو یقینی بنانے کیلئے الیکشن کے روز موبائل سروس اور انٹرنیٹ کو بند کیا گیا۔ ان تمام ترتدابیر کے باوجود جب انتخابی نتائج آنے لگے تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار پنجاب اور کراچی میں بڑے مارجن سے جیت رہے تھے۔ مسلم لیگ نواز اور ایم کیو ایم [پاکستان ] کو جتوانے کی ساری تدبیریں چوپٹ ہوچکی تھیں۔ نتائج کا رجحان دیکھتے ہوئے نتائج کے اعلان کا سلسلہ سرعت کے ساتھ روکا گیا۔ صحافیوں کے بقول الیکشن کمشنر رات گیارہ بجے غائب ہو کر اگلے صبح گیارہ بجے دفتر کے پچھلے دروازہ سے وارد ہوئے تھے۔ دوبارہ جب نتائج کا اعلان ہونے لگا تو جیت کا رُخ اور رجحان تبدیل ہوچکا تھا جو اب فوج اور الیکشن کمیشن کے گلے میں مچھلی کے ہڈی کی طرح پھنس کر رہ گئے ہیں۔

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے الیکشن کمیشن کی طرف سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر اپنے کامیابی کے اعلان کو نہ صرف جُھٹلا کر نشست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا بلکہ یہ انکشاف بھی کیا کہ دراصل کراچی سے اس نشست پر سب سے زیادہ ووٹ پی ٹی کے آزاد امیدوار کو ملے ہیں جسے الیکشن کمیشن نے نتائج میں تیسری پوزیشن پر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر لیاقت چھٹہ ایک پریس کانفرنس کے دوران الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی اور اس میں ملوث ہونے کا اعتراف اور انکشافات کرتے ہوئے اپنے عہدہ اور ملازمت سے استعفےٰ دینے کا اعلان کرکے اپنے آپ کو پولیس کے حوالہ کردیا۔

ایک اور واقعہ میں چند صحافیوں نے لاہور کے ایک چھاپہ خانہ میں نواز شریف کے حق میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی پکڑے جانے کا ویڈیو جاری کردیا۔ انتخابی دھاندلی اور نتائج میں چھیڑ چھاڑ کا روز نیا اسکینڈل سامنے آرہا ہے۔ پی ٹی آئی، مولانا فضل الرحمان کی جمیعت، جماعت اسلامی، محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور عبدالخالق ہزارہ کی جماعتیں فوج، الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ پر انتخابات میں بدترین دھاندلی کرانے کا الزام لگا کراحتجاج کر رہے ہیں۔ سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے تو پارلیمانی سیاست چھوڑنے پر غور کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

امریکہ، یورپی یونین اور عالمی میڈیا بھی الیکشن میں عدم شفافیت پر تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔ جمہوری ملک کا درجہ ملنا تو دور کی بات ہے الیکشن کے بعد جاری نئی شائع شدہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان کو ہائبرڈ جمہوریت کے درجہ سے بھی نیچے اتھارٹیرین ممالک کے درجے میں رکھا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ نام نہاد الیکشنز اور ما بعد الیکشنز کے منظر نامہ میں پاکستان کا زوال پذیر غیر فطری ریاست تیزی سے انتشار، تقسیم اور انہدام کی جانب بڑھتا نظر آرہا ہے۔ براہوئی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ “لوڑی چائہ پوغ تہ چائہ، خوازدار چائہ دروغ تہ چائہ” جس کا اردو معنیٰ کچھ اس طرح سے ہے “لوہار جانے اس کے انگارے جانیں، آقا جانے اس کا جھوٹ جانے” مجھے بھی پاکستان کے انتشار اور انہدام سے سروکار نہیں البتہ بلوچ قوم اور تحریک آزادی پر اس صورتحال کے ممکنہ اثرات اور تحریک کی کامیابی کے امکانات میں دلچسپی ہے۔ پس اب ہم اپنے بحث کو اسی بات کی طرف موڑتے اور انہی نقاط پر مرکوز کرتے ہیں۔

جہاں تک مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی انتخابی ڈرامہ کی بات ہے تو سوائے سرداروں کے زیر اثر علاقوں میں تھوڑی سی ہلچل کے بلوچ عوام نے کہیں بھی پاکستانی انتخابی ڈرامہ میں کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ حتیٰ کہ امیدواروں اور ان کی جماعتوں نے بھی کہیں انتخابی مہم نہیں چلائے۔ ووٹ مانگنے کیلئے عوام کے پاس جانے کی انھیں ہمت ہی نہیں ہوئی۔ جبکہ اس دوران انتخابات سے لاتعلق مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ان کی قتل جیسے نسل کش کاروائیوں کے خلاف ایک شاندار تحریک ابھری۔ کوئٹہ سے لے کر کراچی و ملیر تک، اور مکران، جہلاوان، لسبیلہ، خاران اور چاغی سے لے کر کوہلو، بارکھان، ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف تک بلوچ قوم نے پاکستان کی بلوچ نسل کش پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف یکساں احتجاج کرکے قومی یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔

اس تحریک کے دوران پاکستانی پارلیمانی سیاست سے منسلک جماعتیں، ان کے انتخابی امیدوار اور قیادت شرمناک حد تک بلوچ قوم اور اس تحریک سے فاصلہ رکھتے ہوئے گونگے اور بہرے بنے رہے تاکہ قابض فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں کہیں ناراض ہوکر ان کے سروں سے دست شفقت نہ کھینچ لیں۔ جس طرح پاکستانی جماعتیں بلوچ نسل کشی کے خلاف تحریک میں بلوچ قوم سے لاتعلق رہے اسی طرح بلوچ قوم بھی انتخابی ڈرامہ میں ان سے لاتعلق رہا۔

بلوچ قوم کی جاری نسل کشی، بلوچوں کے آئے روز جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں، جعلی پولیس مقابلوں اور فرضی فوجی کاروائیوں میں بلوچ فرزندوں کی ماورائے عدالت قتل جیسے انسانی حقوق کی سنگین پامالی پر بولتے جن سیاستدانوں کے زبان پر چھالے پڑتے تھے، جو ایسے خاموش تھے جیسے انھیں سانپ نے سونگھ لیا ہو، جیسے ان کے منہ میں زبان ہی نہ ہو،اب وہ سب سیاستدان اور ان کی جماعتیں الیکشن کے نام پر 8 فروری کو ہونے والے گرینڈ سلیکشن میں فوج کی طرف سے یکسر نظر انداز کئے جانے کے خلاف اچانک نہ صرف بولنے لگے ہیں بلکہ دھواں دار تقاریر، احتجاج اور فوج کا نام لے کر تنقید بھی کرنے لگے ہیں۔ جو بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں کبھی خاموش، کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا معاون و سہولتکار بنتے تھے اب وہ اپنے چند ووٹ ادھر سے ادھر ہونے، بقول ان کے چرائے جانے پر عوام کو پکارنے لگے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مقبوضہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں پولنگ اسٹیشن ویران تھے۔ احتجاج کرنے والے شاید وہاں جعلی ووٹ بھگتاتے وقت فوج کی طرف سے نظرانداز کئے جانے کے خلاف سیخ پا ہورہے ہیں تاہم اب ان کی بے سود سیاست، پارلیمان اور حکومتوں میں بیٹھ کر قابض فوج کیلئے ان کی معاونت کاری کو بلوچ عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اسلئے ان کی آواز پر کوئی دھیان نہیں دے رہے۔

پاکستان، بالخصوص بلوچستان میں انتخابی ڈرامہ اور اس کے ما بعد منظر نامہ پر نظر ڈالنے کے بعد اب ہم مقبوضہ بلوچستان میں تحریک آزادی پر اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

مارچ 1948 میں بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ کے بعد 1950 کی دہائی میں مرحوم میر غوث بخش بزنجو سمیت کالعدم سابق قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی قیادت میں سے بیشتر قائدین نے مسلم لیگ میں شمولیت سے جس سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا اس سیاسی سفر کو وہ خود اور اس سیاسی مکتب فکر سے جُڑے ان کے ورثاء اور پیروکاروں نے نیپ، این ڈی پی و پی این پی سے لے کر بی این وائی ایم [بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ]، بی این اے [بلوچستان نیشنل الائنس]، بلوچستان نیشنل موومنٹ، پی وائی ایم [پروگریسو یوتھ موومنٹ]، پی این ایم [پروگریسو نیشنل موومنٹ]، جمہوری وطن پارٹی، بی این پی اور نیشنل پارٹی کے تشکیل تک بلوچ قوم دوستی کے نام پر جاری رکھا۔

اگرچہ پاکستانی جغرافیائی اور دستوری ریاستی ڈھانچہ کے اندر ان کی اس سیاست نے پاکستان اور بلوچستان کے مابین قابض اور مقبوضہ جیسے رشتے کے بارے میں ابہام پیدا کرتا رہا لیکن بلوچ قوم کبھی بھی پوری طرح سے اس ابہام کا شکار نہ رہا کیونکہ پاکستانی پارلیمانی سیاست کے متوازی بلوچ قومی آزادی کی تحریک بھی ہمیشہ زندہ اور سرگرم رہا۔

پاکستان کی طرح مقبوضہ بلوچستان میں نام نہاد انتخابی عمل اور اس کے نتائج کے تناظر میں تا دم تحریر ہذا جو منظر نامہ سامنے نظر آرہا ہے وہ 8 فروری 2024 سے بہت پہلے ” نوشتہ دیوار” کی طرح صاف نظر آرہا تھا اور راقم نے 24 دسمبر 2023 کو “مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک بار پھر ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ متعہ” کے عنوان سے اپنے ایک تحریر میں اس کی نشاندہی بھی کیا تھا۔ مقبوضہ بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر پاکستان کے جغرافیائی اور دستوری ڈھانچہ کے اندر پارلیمانی سیاسی سراب کے پیچھے بھاگنے والی جماعتوں کو بے وقعت و بے اختیار پارلیمنٹ سے باہر رکھنے کے کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند نمایاں اسباب پر ذیل میں روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں :

1 :پاکستانی جغرافیائی اور دستوری ڈھانچہ کے اندر پارلیمانی سیاست کے ذریعے بلوچ قوم کیلئے حق حاکمیت، بلوچستان کے ساحل اور وسائل کی تحفظ جیسے حقوق اور اختیارات کا حصول تو بہت دور کی بات ہے ان نعروں پر قوم پرستی کی سیاست کرنے والی جماعتیں تو پاکستانی آئین کے اندر حاصل حقوق اور اختیارات کی منتقلی اور نام نہاد 18 ویں دستوری ترمیم پر عملدرامد کیلئے بھی پنجابی فوج اور سیاستدانوں کو آمادہ کرانے میں بُری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں، جعلی پولیس مقابلوں اور فرضی فوجی آپریشنز میں بلوچوں کے قتل اور “مارو اور پھینک دو” جیسے سفاکانہ پالیسیوں کو روکنا تو ان کے بس کی بات ہی نہیں لیکن یہ جماعتیں اور ان کے پارلیمانی ارکان مذکورہ بلوچ نسل کش پالیسیوں اور اقدامات پر، سوائے سردار اختر مینگل کے، بات کرنے سے بھی کتراتے رہے ہیں۔ قوم پرستی کے نام پر یہ پارلیمانی مُہرے بلوچ نسل کشی میں کبھی خاموشی کی صورت میں، کبھی درپردہ تو کبھی کھلم کھلا فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی معاونت کرتے رہے ہیں۔ مخلوط حکومتوں کا حصہ بن کر یہ جماعتیں رد بغاوت کے نام پر بلوچ بستیوں پر بمباری، گھروں کو جلانے اور لوٹنے جیسے فوج کے جنگی جرائم کو قانونی رنگ دینے کے لئے بلاجھجک اپنے کندھے پیش کرتے رہے ہیں جس کے باعث بلوچ قوم میں عوامی سطح پر ان نام نہاد قوم پرست جماعتوں کیلئے ہمدردی اور حمایت کم ہوتے ہوتے معدومیت کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اب جبکہ بلوچ عوام کے اندر ان جماعتوں کیلئے حمایت اور پاکستانی سیاست سے دلچسپی باقی نہیں رہا تو قابض پاکستانی فوج، انٹیلی جنس اور پنجابی سیاستدانوں کیلئے بھی ان کی ضرورت اور افادیت ختم ہوگئی ہے جس کے باعث فوج نے الیکشن کے نام پر گرینڈ سلیکشن میں ان جماعتوں کو نظر انداز کر دیا۔

2 : نام نہاد الیکشن سے بہت پہلے صاف نظر آرہا تھا کہ فوج اور انٹیلی جنس ادارے اب کی بار قوم پرستی کے نام پر پالے اپنے مہروں کو اسمبلیوں میں لانے کی بجائے فی الحال ان کی جگہ ڈیتھ اسکواڈز اور ڈرگ مایہ سے منسلک اپنے کارندوں کو نام نہاد مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے سلیکٹ کرکے ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتے ہیں ایک تو اس کھیل کے بعد وہ یہ دعویٰ کرنا چاہتی ہیں کہ پاکستانی مرکزی دھارے کی جماعتوں کی نام نہاد جیت کا مطلب یہ ہے کہ بلوچ عوام نہ صرف پاکستانی جبری قبضہ کو تسلیم کرچکے ہیں بلکہ اس نوآبادیاتی تسلط کے تحت وہ مقبوضہ بلوچستان میں شیر اور شہد کی نہریں بہتے دیکھنے کے مطمنی اور منتظر ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست مقبوضہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف فوجی آپریشنز اور نسل کشی میں زیادہ شدت لانا چاہتی ہے جس کیلئے ڈیتھ اسکواڈز، ڈرگ مافیہ و لینڈ مافیہ کارندوں اور غیر سیاسی سرداروں کا کندھا استعمال کرنا انھیں زیادہ مفید اور آسان نظر آتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کیلئے معاونت کاری کے کچھ حدود ہوتے ہیں وہ ان حدود سے آگے نہیں جاسکتے جبکہ ان کے مطالبات بھی ہوتے ہیں جن کو فوج بلیک میلنگ اور نخرے کہتا ہے۔ فوج سمجھتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی کی تیزی سے پھیلائو اور شدت کا مقابلہ کرنے کیلئے ریاست کے پاس زیادہ ننگی جارحیت اور جبر کا راستہ ہی رہ گیا ہے کیونکہ پاکستان کی تباہ حال معیشت سمیت تمام ریاستی ڈھانچہ کی بوسیدگی کے باعث فوج سیاسی عناصر کے مطالبات اور نام نہاد حدود اور تحفظات کا خیال رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ شاید مستقبل میں پھر کبھی فوج کو ان جماعتوں کی ضرورت پڑجائے لیکن فی الحال فوج جس جارحانہ پالیسی پر عمل کرنا چاہتا ہے اس میں ان نام نہاد قوم پرست جماعتوں کی اسے کوئی افادیت نظر نہیں آرہی ہے۔ فوج کی اس سوچ کا اظہار الیکشن سے بہت پہلے نگران وزیراعظم انوار کاکڑ اور سرفراز بگٹی جیسے ان کی ٹائوٹس کے بیانات میں ملتا ہے جو متعدد بار یہ کہتے سنے گئے کہ جب بھی ریاست بلوچ تحریک آزادی سے جیت کے قریب پہنچتا ہے تو نام نہاد سویلین حکومتیں مصلحت کا شکار ہوکر پارلیمانی قوم پرستوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے حتمی جیت کا راستہ روکتے دیتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ انوار کاکڑ اور سرفراز بگٹی جیسے لوگ جو بات کرتے ہیں دراصل وہ ان کی نہیں فوج کی سوچ ہوتا ہے۔

اب جو منظر نامہ بنتا نظر آرہا ہے اس کے مطابق مقبوضہ بلوچستان میں فوج اور خفیہ ایجنسیاں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور بلوچستان عوامی پارٹی [باپ] کی باقیات پر مشتمل حکومت بنائیں گے۔ مولانا فضل الرحمان کی جمیعت بھی بن بلائے مہمان کی طرح اس حکومت میں شامل ہوسکتا ہے کیونکہ حکومت سے باہر جمیعت کی حالت ویسے ہوتا ہے جیسے پانی کے باہر مچھلی کا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سراوان اور جہلاوان سے جمیعت کے پلیٹ فارم سے کوئی مُلا نہیں بلکہ سرِ سرداران سراوان خود اور جہلاوان سے سرِ سرداران جہلاوان کے ایک بھائی اور ایک بہنوئی اسمبلی پہنچے ہیں۔ وزراء کا کردار فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی بلوچ نسل کش پالیسیوں اور اقدامت کی کُھل کر حمایت اور تعریف و توصیف کرنے اور اس کے بدلے میں چھوٹے موٹے مراعات اور مفادات حاصل کرنے تک محدود ہوگا۔ اختیارات اور اقتدار حسب سابق فوج اور خفیہ اداروں کے پاس رہیں گے۔

دوسری جانب بلوچ قومی تحریک آزادی بھی اس منظر نامہ میں گھاٹے کا شکار نظر نہیں آتا۔ بلوچ قوم کی بھاری اکثریت پاکستانی جغرافیائی، پارلیمانی اور دستوری ڈھانچہ کے اندر حق حاکمیت، اپنے وطن، اس کی ساحل اور وسائل پر اختیار حاصل کرنے کو ایک نا قابل حصول نعرہ سمجھتے ہوئے اس سراب کی سمت سفر میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں اس کے برعکس بلوچ قوم کی واضح اکثریت پاکستان سے آزادی کیلئے جاری قومی تحریک کا ہمدرد اور حامی نظر آتا ہے۔

قابض پاکستانی فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے بلوچ قوم کے خلاف ننگی جارحیت و نسل کش کاروائیوں میں مزید شدت لانے کا جو منصوبہ بنا چکے ہیں اس پر عملدامد کر کے وہ بلوچ قومی تحریک آزادی کو شکست دینے یا کمزور کرنے میں تو ہرگز کامیاب نہیں ہونگے بلکہ اس کے برعکس بلوچ قوم کے خلاف ریاستی دہشتگردی اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی پالیسی میں ریاست جتنی زیادہ شدت لائے گی بلوچ سماج کے اندر تحریک آزادی کیلئے موجود حمایت اسی شدت سے تحریک آزادی کے ساتھ ان کی سرگرم شرکت میں تبدیل ہوتا جائے گا اور آزادی پر واحد آپشن کے طور پر ان کا یقین مزید پختہ ہوتا جائے گا۔

اس کے علاوہ ریاستی جبر اور تششد کے نتیجہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جتنی بڑھیںگی پاکستان پر عالمی تنقید اور دبائو بڑھے گا جو مختلف نوعیت کی پابندیوں پر منتج ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی اصولاً جبری قبضہ و نوآبادیاتی تسلط کا علاج قومی آزادی ہی تو ہے۔ بلوچ قوم کے پاس بھی قومی بقاء و قومی وقار کی تحفظ اور اپنے وطن اور اس کے وسائل پر اختیار حاصل کرنے کیلئے قومی تحریکآزادی سے جُڑنے اور تحریک کی کسی نہ کسی محاذ پر سرگرم کردار ادا کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ بلوچ عوام کی واضح اکثریت کو بھی اب اس بات کا بھرپور احساس، ادراک اور شعور ہے۔

اس صورتحال میں بلوچ آزادی خُواہ قیادت اور ان کی تنظیمیں بالغ نظری اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرکے اشتراک عمل، اعتماد سازی، اتحاد، ادغام اور یکجہتی کے عمل کو مزید وسعت دے کر مضبوط تنظیمی بنیاد فراہم کرنے، بلوچ قومی قوت اور توانائیوں کو ایک مرکزی قومی قوت کی شکل دینے میں اگر کامیاب ہوگئے تو اس سے نہ صرف گرائونڈ پر بلوچ قوم کے اندر آزدای کا جوش و جذبہ بڑھے گا اور قومی سطح پر موجود آزادی کی احساس، ادراک اور شعور تحریک سے عوام کی عملی جُڑت کی روپ دھار لے گا بلکہ عالمی اور علاقائی سطح پر حمایت حاصل کرنے کی بلوچ قومی کوششوں پر بھی اس کے مثبت اثرات پڑیں گے۔ تقسیم کا تاثر ختم ہوگا اور حمایت کے حصول کی راہ میں حائل ایک کلیدی رکاوٹ ختم ہوگا۔ پاکستان اور مقبوضہ بلوچستان کے موجودہ سیاسی منظر نامہ میں بلوچ قومی تحریک آزادی کیلئے مذکورہ بالا سب امکانات اور ان کے اثرات واضح طور پر روشن نظر آرہے ہیں۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here