آرین حملہ آوروں کے خلاف بلوچوں کی مزاحمت تحریر:۔ ڈاکٹرجلال بلوچ

0
663

انسانوں نے غاروں سے نکل کر بستیاں تعمیر کیں، وہ بستیاں اجاڑ دی گئی یا فطرت کے قہر سے اجڑ تے گئے۔ پر انسان بھی جسے قدرت نے اشرف المخلوقت کا درجہ عنایت فرمایا ہے کہاں رکنے والا تھا۔انہوں نے پھر ان اجڑی ہوئی بستیوں کی راکھ پہ نئے مساکن تعمیر کیے، وہ بھی روبہ زوال ہوگئے لیکن انسان آگے برھتا رہا اور ہرگام پہ ہرمشکل کا مقابل کرکے نئی بستیاں آباد کیں۔یوں یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج ہم قدیم آبادیوں کے آثار(ٹیلے، دمب) سے متصل نئی بستیاں دیکھ سکتے ہیں بالخصوص بلوچستان میں تو ہر اس مقام پہ ایسے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں جہاں یہ قدیم انسانی آبادیاں قائم تھیں۔ اگر ہم مہرگڑھ سے شاہی تمپ اور بمپور(مغربی بلوچستان) تک کا سفر کریں تو کوئی مقام ایسا نظر نہیں آئے گا جہاں کسی قدیم بستی کے آثار پہ کوئی نئی دنیا نہ بسائی گئی ہو۔ لہذا یہ اس جانب دلیل کرتی ہے کہ ان مدفون آثار سے یہاں کے باشندوں کا رشتہ ازل سے ہے۔ اس رشتے کو زوال پذیر کرنے کے لیے تاریخ نویسوں نے شعوری یا لاشعوری بنیادوں پہ حتیٰ الوسع کوششیں کیں۔ جنہوں نے کبھی ہمیں مہاجر کہا تو کسی نے آرین، کوئی ساکائی نظریہ لے کر وارد ہوا تو بعض محققین نے کلدانی، تاجک، کرد،دراوڑ وغیرہ سے ہمارا راشتہ جوڑنے کی کوشش کی۔ اگر باریک بینی سے مشاہد ہ کرنے کے ساتھ بلوچستان کا طواف بھی کیا جائے تویہ حقیقت افشاں ہوگی کہ وہ سارے تاریخ نویس جنہوں نے بلوچ قوم کا رشتہ غیروں سے جوڑنے کی کوششیں کیں وہ لغو نظریات کے سوا اور کچھ نہیں۔

مہرگڑھ تہذیب جو اب تک کی دریافت شدہ تہذیبوں میں ایشاء کی قدیم ترین تہذیب کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔اس تہذیب کے حوالے سے ڈاکٹر شاہ مری صاحب رقم کرتا ہے کہ یہ تہذیب کبھی تبا ہ اور ختم نہیں ہوئی۔چنانچہ ہم بنیادی طور پر انہی لوگوں کی آل و اولاد ہیں۔اس لیے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے موروثی طور پر صرف اپنا خدوخال،اطوارو عادات ہی نہیں لیے بلکہ ہم نے تو رہن سہن، زبان و ثقافت کا بیج بھی وہیں سے پایا ہے اور اسی سے نشوونما پاکر اکیسویں صدی تک کا تسلسل پایا

۔1 بلوچ خطے میں مدفون ان ٹیلوں کے وارث بلوچ ہی ہیں اور بعض محققین کی آرا ء کے ساتھ ان ٹیلوں سے دریافت ہونے والے آثار بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ میں ہمارا نسلی رشتہ انہی لوگوں سے ہے۔ اس حوالے سے انسائیکلوپیڈیا تاریخ عالم کے مطابق ان چیزوں سے ابتدائی دور کے لوگوں کے مادی اور معاشرتی حالات بخوبی معلوم ہوجاتے ہیں

۔2 قدیم آثار جن کا عکس ہم آج بھی بلوچ ثقافت دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سرزمین جس سے ہمارا ازل کا رشتہ ہے وہ ایک ایسی دورائے پہ قائم ہے جو شمالاً، جنوباً، مشرق و مغرب یعنی ہر سمت سے آنے اور جانے والے اس خاک کی زیارت کرتے ہیں۔اس سرزمین کی اسی اہمیت کے پیش نظر یہ خطہ اپنی عمر ایک بڑا عرصہ یورشوں میں گزارا۔بلوچ خطے کی اور اس کے باسیوں کی اگر بات کی جائے تو یہ انتہائی پرامن اور دنیاکا مہذب ترین تہذیب تھا جس کے ثبوت مہرگڑھ سے دریافت ہونے والے آثار میں ملتے ہیں۔ لہذا وحشی اور حملہ اقوام یا گروہوں نے انہیں مزاحمت پہ مجبورکیا۔جنہیں ہم کبھی آرین قبائل کی یلغار کی صورت میں دیکھتے ہیں، کبھی یونانیوں، کبھی ساسانیوں، کبھی عربوں کے خلاف انہیں ”سنگر“(مورچہ) سنبھالے دیکھتے ہیں تو کبھی منگول، مغل،افغان، انگریز اور آج ایک انتہائی غیرمہذب قوم (پنجابی جو استعماری قوتوں کی دالالی کرکے ایک ریاست ہڑپ لی) کے خلاف متحرک دیکھ رہے ہیں۔ بلوچ قوم کی مزاحمتی تاریخ کے بارے میں جامع تحقیق کی ضرورت ہے البتہ دستیاب دستاویزات کی رو سے بلوچوں کو ہم پیش دادی حکمرانوں کی عسکری طاقت(فوج) میں دیکھ سکتے ہیں۔ پیش دادی دور حکومت 2100ء قبل مسیح میں بلوچ عسکری میدان میں اپنا لوہا منواچکے تھے۔البتہ اس بابت کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ پیش دادی پورے بلوچستان پہ حکمرانی کررہے تھے یا ایران اور اس سے متصل بلوچ علاقوں پہ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ بلوچ کالدین یا چالدین نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اس حوالے سے سب سے پہلا مفسر پروفیسر راؤلنس تھا جنہوں نے بلوچوں کو کالدین کہا۔اس حوالے سے ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ اپنی کتاب ”دی پرابلمز آف بلوچستان“ میں پروفیسر راؤلنس کے الفاظ کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ بلوچ کا ماخذ”بلوس“(Balus)ہے جو بابل کا بادشاہ تھا، جسے نمرود کہا جاتا تھا۔وہ چالدین سلطنت کا بانی تھا۔اس نے تقریباً 2400قبل مسیح میں حکومت کی اور بابل کا شہر تعمیر کیا

۔3 پروفیسر راؤلینس کے علاوہ بلوچ محققین سردار محمد خان، جبکہ کسی حد تک جسٹس میر خدابخش بجارانی بھی اسی نظریے کا حامی ہیں۔لیکن اس نظریے میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی کیوں کہ ایک تو جس زمان میں پروفیسر راؤلینس نمرود کو بابل کا حکمران ظاہر کرتا ہے اس دور میں اس خطے میں کالدین نہیں بلکہ سمیری حکمران تھے جنہیں اسی زمانے یعنی 2400قبل مسیح میں اکادیوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے بہت سارے علاقے ان کی دسترس سے چلے گئے۔پروفیسر راؤلینس کا نظریہ اس لیے بھی ایک افسانوی داستان سے زیادہ کچھ نہیں کہ 2100مسیح میں بلوچ ایرانی حاکمیں (پیشدادیوں) کے فوج میں اہم مقام رکھتے تھے۔اس کے علاوہ بلوچستان سے ملنے والے آثار جو ایشیاء کی کسی بھی تہذیب سے قدیم تر ہیں جن میں ہمیں بلوچی ثقافت کا عنصر ہی دکھائی دیتا ہے،ایک اور اہم نقطہ کہ اس دور میں کالدین نہیں بلکہ سمیر ی اس خطے کے حاکم تھے جنہیں اسی زمانے میں اکادیوں کے ہاتھوں شکست اٹھانی پڑی۔ بہرحال آتے ہیں موضوع کی جانب پیش دادی جنہیں بعض دانشور اولین زمانے کے آرین خیال کرتے ہیں جن کا ایران میں حکمرانی کی ابتداء کا زمانہ 2100قبل مسیح بتایا جاتا ہے اور چھ سو سال تک اس خطے میں ان کی حاکمیت قائم رہی۔ پیش دادیوں کی حکمرانی کے چھ سو سال بعد 1500قبل مسیح میں اس خطے پہ بحرہ ہیرکانیہ کے راستے آرین قبائل یلغار کرتے ہیں۔چوں کہ آرین حملہ آوروں کا ایران میں داخل ہونے کی راہ کیسپین یا ہیرکانیہ تھا جہاں ہیرکانی قبائل یا کاسپین قبائل آباد تھے، جن کا تذکرہ بابائے تاریخ ہیروڈوٹس کی ساتویں کتاب میں بھی موجود ہے۔

آرین حملہ آوروں کے سامنے سب سے پہلے ہیرکانی بلوچ قبائل آئیں لہذا ان بلوچ قبائل نے حملہ آوروں کی راہ روکنے کی حتی الوسع کوشش کیں اور ایک طویل عرصے تک انہیں روکے رکھا۔ہیروڈوٹس نے اپنی کتاب ماد(آرین) قبائل کی حکمرانی کے ہزار سال بعد تحریر کیا ہے شاید اسی لیے انہیں کاسپین کے ساتھ ساتھ ہیرکانی بھی کہتا ہے یا ہیرکانی شاید اس دور میں بلوچ خطے کے دیگر علاقوں میں آباد ہوچکے تھے اور انہوں نے خود کو ہیرکانی کہنا شروع کیا تھا۔ آرین حملہ آوروں سے بلوچوں کی یہ جنگ شاید بلوچ تاریخ میں کسی بھی حملہ آور کے خلاف تاریخ کی طویل ترین مزاحمت تھی جس کا دورانیہ سات سے آٹھ سو سال بتایا جاتا ہے۔ 2100 قبل مسیح تا 854قبل مسیح تک ایران اور اس سے متصل خطوں میں پیشدادیوں کی حکمرانی تھی اور ان کی حکمرانی کو سنبھالا دینے میں بلوچ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، جس کی دلیل ہم آرین حملہ آوروں کے خلاف بلوچوں کی اس طویل مزاحمت میں دیکھ سکتے ہیں۔جسے پروفیسر فاروق بلوچ یوں بیان کرتا ہے کہ بلوچ زمانہ قدیم میں اولین ایرانی پیش دادی یا Gothiansکے دور میں 2100قبل مسیح سے 854قبل مسیح تک ایرانی فوج میں رہے اور ایک وسیع سرحد کی حفاظت پہ مامور تھے۔4 یعنی ایران کے سرحدی علاقہ جات وہ چاہے پکتیہ، پاکتیا سے ملتے ہوں، ہندوستان یاسینٹرل ایشیاء سے، ان کی حفاظت بلوچوں کے ذمہ تھی۔اس سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ بلوچ انہی علاقوں میں ازمنہ قدیم سے آباد چلے آرہے ہیں وہ چاہے سلسلہ البرز ہو، سراوان و جہلاوان ہوں،جنوبی بلوچستان یا سینٹرل ایشیاء کا سیم (بارڈر) سرخس یا بحرہیرکانیہ۔ ایسا لگتا ہے کہ رفتہ رفتہ آرین حملہ آوروں نے مزید آگے پیش قدمی کے لیے اپنے حملوں میں مزید شدت پیدا کی جس کی وجہ سے وہ ایک طویل جنگ کے بعد سیستان تک پہنچ گئے جو بلوچوں کا ایک قدیم اور انتہائی مضبوط مرکز شمار کیا جاتا ہے۔اسی زمانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فاروق بلوچ رقم طراز ہے کہ اس زمانے میں سیستان پر ناروئی بلوچوں کی سیادت قائم تھی

۔5 یہ لوہے کا زمانہ تھا اورآہستہ آہستہ آرین حملہ آوروں کی یلغار نے بلوچستان کے دیگر بعض علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کا دائرہ کار راہ ہند یعنی بولان تک وسعت اختیار کرگیا۔پیرک کا دمب جو کچھی میں آباد ہے وہاں سے اسی زمانے کے چند ایک آثار دریافت ہوچکے ہیں جن میں لوہے کے ہتھیار بھی موجود ہیں جو اس بات کی غماز ہے کہ بلوچ قوم کو کسی طاقتور قوت کے حملوں کا سامنا تھا۔ اس حوالے سے ڈاکڑ شاہ محمد مری اپنی کتاب”مہرگڑھ سے تشکیل ریاست تک“میں رقم طراز ہے کہ دور سوئم گیارویں صدی قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے، یہی دور لوہے کا زمانہ ہے۔یہاں پر لوہے کے پانچ عددنیزے کی انیاں، دوبلیڈز اور ایک کلہاڑی ملی ہے

۔6 ان جنگی ہتھیاروں کی دریافت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلوچ فنون حرب و ضرب پہ مالا رکھتے تھے اور انہیں کسی حملہ آور کا خوف لاحق تھا۔ وہ کون ہوسکتا ہے؟ آرین یا ان کی آپسی چپقلش، وسوق کے ساتھ کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔البتہ اگر ہم اس دورکے حالات کا جائزہ لیں تو یہ بلوچستان میں آرین خانہ بدوشوں کی آمد کا دور ہے۔جن سے بلوچوں کی چپلقش رہی وہ بھی مختصر مدت کے لیے نہیں بلکہ سات، آٹھ سوسالوں تک وہ ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار رہیں۔ بعد کے زمانے پہ جب ہم نظر دوڑاتے ہیں جہاں آرین قبائل میں سے ہی ایک قبیلہ”مید یا ماد“ نے ایران میں پیشدادیوں کو شکست دے کر اپنی حکومت قائم کی جس کے بعد بلوچوں کو ہم آرین لشکر میں دیکھتے ہیں۔جس سے ایسا لگتا ہے کہ اس دور میں صدیوں کی اس چپقلش کے بعد بلوچوں اور آرین حملہ آوروں کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہوگا۔ کیوں ایران کے ”ماد“ (آرین) حکومت کے لشکر میں جس کا نقشہ فردوسی اپنی کتاب شاہنامہ میں کھینچتا ہے بلوچوں کو حرب و ضرب کا دھنی کہنے کے ساتھ انہیں عظیم تر بلوچستان کے ہر حصے میں سکونت پذیر بھی دکھاتا ہے۔یعنی وہ آرین حملہ آوروں سے قبل اس خطے میں نہ صرف آباد تھے بلکہ ان کی طاقت ان حملہ آور قبائل(آرین) سے کسی طور کم نہیں ہوگی جو ان کی اس طویل مزاحمتی تحریک سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس بات سے بھی بلوچ اور آرین معاہدے کی جانب اشارہ ملتا ہے کہ ہیرکانیہ اور اس کے مضافات میں ساسانیوں کی حکمرانی کے درمیانی دور(نوشیروان کی حاکمیت) تک بلوچ (ہیرکانی قبائل) اس خطے میں عظیم طاقت بھی تصور کیے جاتے تھے۔

آرین قبائل کے خلاف بلوچوں کی یہ طویل مزاحمت اس بات کی غماز ہے کہ بلوچ آرین حملہ آوروں سے ہزاروں برس قبل اس خطے میں آباد تھے اور صدیوں پہ مشتمل اس مزاحمت سے ایک تو ان کی وطن دوستی کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے اور دوسر ا پیش دادی حکومت میں ان کی حصہ داری جہاں وہ باہمی تعاون کے ساتھ زندگی بسرکررہے تھے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہی وجوہات کے سبب اس دور میں بلوچوں نے آرین حملہ آوروں کے خلاف یہ طویل مزاحمت کی۔ آرین قبائل کے خلاف بلوچوں کی صدیوں پہ مشتمل مزاحمت سے ایک اور جانب بھی اشارہ ملتا ہے کہ ممکن ہے اُن دنوں ہیرکانیہ،سیستان اور ممکنات میں سے ہے کہ سراوان اور کچھی کے علاقوں میں ان کی باقائدہ حکومت یا حکومتیں قائم ہوں، اس بابت وسوق کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ یہ نتیجہ صدیوں کی مزاحمتی تحریک اور بلوچستان سے دریافت ہونے والی قدیم بستیوں کے خد و خال دیکھ کر اخذ کرسکتے ہیں۔


حوالہ جات:
1۔(مہرگڑھ سے تشکیل ریاست تک۔۔۔ڈاکٹر شاہ محمد مری۔۔۔تیسرا ایڈیشن۔۔۔ناشر۔۔۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز کوئٹہ۔۔۔صفحہ نمبر۔۔۔73)
2۔ (انسائیکلوپیڈیا تاریخ عالم۔۔۔ولیم ایل لینگر۔۔۔ترجمہ۔۔۔مولانا غلام رسول مہر۔۔۔ناشر۔۔۔گنج شکر پریس لاہور۔۔۔ ایڈیشن۔۔۔2018۔۔۔صفحہ نمبر۔۔۔13)
3۔(بلوچستان کا مسئلہ (دی پرابلمزآف گریٹر بلوچستان)۔۔۔عنایت اللہ بلوچ۔۔۔اردو ترجمہ۔۔۔ریاض محمود انجم۔۔۔صفحہ نمبر۔۔۔131…132پبلشر۔۔۔جمہوری پبلکشن لاہور۔ (
4۔بلوچ اور ان کا وطن۔۔۔فاروق بلوچ۔۔۔فکشن ہاؤس۔۔۔صفحہ نمبر۔۔۔31-32)
5۔(بلوچ اور ان کا وطن۔۔۔فاروق بلوچ۔۔۔فکشن ہاؤس۔۔۔صفحہ نمبر۔۔۔32)
6۔(مہرگڑسے ریاست کی تشکیل تک۔۔۔ڈاکٹر شاہ محمدمری۔۔۔تیسرا ایڈیشن۔۔۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز کوئٹہ۔۔۔صفحہ نمبر۔۔۔103)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here