شہید پیرک جان جہد آزادی کا منفرد کردار- تحریر:۔ ڈاکٹرجلال بلوچ

0
604

جب زمین کی پیا س ا پنی انتہا کو پہنچتی ہے، تب بادل آتے ہیں، گرجتے ہیں، بجلی چمکتی ہے، گرد چمک میں، فطرت اس آگ اور پیاس کو بجھانے کے لیے آکاش کی نہروں کو زمین کی راہ دکھاتی ہے تاکہ زمین سیرآب ہواور خوراک اگلے۔اسی طرح جب کسی سماج میں ظلم و بربریت اپنے عروج پہ ہوں تو انقلابی آتے ہیں قوم کوراہ دکھاتے ہیں، جہد عمل میں اپنی جانوں کی قربانی دیتے ہو ئے اپنے لہو سے اپنی سرزمین کو سیراب کرتے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ زمین سونا اُگلے۔ نورا کابھی یہی عقیدہ تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنے آخری پیغام میں اس طرح کیا ہے کہ ”یہ جنگ ہے اس میں لوگ شہید ہوتے ہیں۔ سر کٹتے ہیں۔ ہمارے لیڈر شہید ہوئے ہیں۔ انشاء اللہ یہ جنگ اپنی منزل کو پہنچے گا، ہم کامیاب ہوں گے۔“ ہاں نورا یہ جنگ ہے اور اس جنگ میں دھرتی کے فرزند منزل مقصود کے حصول تک اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے رہیں گے تاکہ ان کے لہو سے سرزمین کی ایسی آبیاری ہو جس ہر وقت انقلاب کی کلیاں کھلتے رہیں اور ان کی قربانیوں سے آکاش میں ایسی چراغاں ہوں جہاں بصیرت سے محروم افراد کوبھی راہ حق تلاشنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نورا کا یہ آخری پیغام جہاں وہ چاروں سمت دشمن کے نرغے میں آنے کے باوجود چلتن کا حوصلہ لیے قوم کو جہد آزادی کی جانب راغب کرنے کے ساتھ انہیں آزادی کی نوید بھی سنا رہا ہے۔ ایسی ہستیاں اپنے کردار اور عمل کی بدولت تاریخ میں منفرد مقام کا حامل سمجھے جاتے ہیں۔انہی ہستیوں کے کردار میں ہی دراصل پیام آزادی پوشیدہ ہوتا ہے اور جو ان کے آدرشوں پہ عمل کرتا ہے وہ انہی صفوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوپاتا ہے۔

بلوچ جہد آزادی میں ہزاروں فرزند مادروطن پہ خود کو قربان کرچکے ہیں، ہزاروں فرزند دشمن کے ساتھ میدان کارزار میں برسرپیکار ہیں، ہزاروں ریاست کے ان عقوبت خانوں میں مقید ہیں جن کے نام سے ہی دل دہل جاتا ہے۔ یہ شاید انسانی فطرت ہے کہ ہزاروں افراد میں سے چند ایک ذہن پہ انمٹ نقوش چھوڑجاتے ہیں جنہیں تاریخ رہنما کا خطاب دیتا ہے۔حالیہ بلوچ جہد آزادی میں ایسے انگنت فرزندوں نے اپنے لہو سے تحریک کی آبیاری کی ہیں۔شہید نوراحمد (پیرک جان) بھی انہی ہستیوں میں سے ایک ہے جن سے میری پہلی ملاقات دسمبر2014ء میں ہوئی اور سلسلہ آخر وقت تک قائم رہا۔ نورا کا کردار بیان کرنا مجھ جیسے انسان کے لیے آسان نہیں،پر مختصراً اس طرح بیان کرسکتا ہوں کہ نورا نے نورا مینگل کے نام اور کردار کی لاج رکھی، نورا نے مٹی کا فرض ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، نورا کے ہر ادا میں عشق وطن تھا، نورا کے رگ رگ میں دھرتی اور قوم سے منسوب محبت کے گیت تھے جن کی ترجمانی اس کے لبوں سے زیادہ اس کے عمل اور کردار میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔

ایک ایسی ہستی جس کا عمل و کردار محتاجِ بیان نہیں، ایک ایسی ہستی جو ایک عشرے سے زیادہ دھرتی کی خدمت پہ مامور رہا، ایک ایسی ہستی جو دوستوں کے لیے نور مجسم تھا،ایک ایسی ہستی جو فتح کی علامت سمجھی جاتی تھی،اس کی جسمانی جدائی سے جو خلاء پیدا ہوچکا ہے اسے پُر کرنا آسان نہیں پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انقلاب کے گلزاروں میں انہی ہستیوں کے لہو سے جو کلیاں کھلتے ہیں ان کی مہک میں نوید صبح کی صدا ئیں بازگشت کرتی ہیں، جنہیں سننے اور گنگانے کے لیے وطن کے عاشقوں کی تڑپ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اسی عشق کی بدولت انقلابی بارہا اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ دشمن ہمارا لہو جتنا چاہے بہاتا رہے ہم اس کے لیے بخوشی تیار ہیں، کیونکہ انقلابیوں کے لہو سے جو زمین سیراب ہوتی ہے اس دھرتی پہ فکر اور عمل کی ایسی کونپلیں پھوٹتی ہیں جن کی مہک حد نگاہ تک پھیلتی اور محسوس کی جاتی ہے،یہی وہ عشق ہے جس سے دھرتی پہ فکر و عمل کی ایسی روشنی پھیلتی ہے جن میں نابیناؤں کو بھی راہ حق کی تلاش میں سرگرداں نہیں ہونا پڑتا۔ شہید نورا جان کے کردار میں ہم واضح طور یہ عمل دیکھ سکتے ہیں جہاں وہ ہمہ وقت قوم و وطن پہ اس عقیدے کے ساتھ مرمٹنے کو تیار رہتا تھا کہ آنے والی نسلیں ظلم و بربریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہی پگڈنڈیوں پہ محوسفر ہونگے۔

اے شہید نور ا تجھے اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ آزادی کی جدوجہد آگ کا دریا ہے، جسکی تپش انقلابی اپنا لہو اس یقین کے ساتھ بہا کر بجھاتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں آتش اور خون کی ہولی کھیلنے کی بجائے تعمیر و ترقی کی شاہراہ پہ گامزن ہوں اور ستاروں پہ کمندیں ڈال کے نئی دنیا تسخیر کریں۔اے شہید نورا جان اسی یقین کے ساتھ تو نے جان مادر وطن کے حوالے کیا کہ ایک بار جان قربان کرنے سے میرا ہزاروں بار جنم ہوگا، کیونکہ آنے والی نسلیں وطن کے ہر اس فرزند میں مجھے تلاش کریں گے جس کے لیے اول و آخر وطن بس وطن ہو اور تیرا کردار اس بات کی غماز ہے کہ وہ لہو جو تونے وطن کی خاطر بہادی ہے اس سے تیرا وطن ضرور آزاد ہوگا اوریہ دھرتی آنے والی نسلوں کے لیے سونا اُگلے گی،پھر وہ المیہ گیت شوہان کے لیلڑی میں تبدیل ہونگے، پھر مغموم چہروں پہ مسکراہٹیں بکھرجائیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here