افغان امن معاہدے پر عمل درآمد کیلئے زلمے خلیل زاد و طالبان رہنما مابین ملاقات

0
252

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان ملاقات کے دوران امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد اور قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کے معاملے سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی ہے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پیر کو ہونے والی اس ملاقات میں افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بھی خلیل زاد کے ہمراہ تھے۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر اور افغانستان میں تشدد میں اضافے کی وجہ سے امن معاہدے میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔

اگرچہ افغان حکومت نے طالبان کے 360 سے زائد قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور طالبان نے بھی افغان حکومت کے 20 قیدی رہا کیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اب تک تمام قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں فریقین کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔

امن معاہدے کے تحت افغان حکومت کو طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنا ہیں جس کے بدلے طالبان ایک ہزار افغان قیدیوں کو رہا کریں گے۔

افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کے مطابق طالبان قیدیوں کو صدر اشرف غنی کے 11 مارچ کو جاری کردہ فرمان کے مطابق بگرام جیل سے رہا کیا گیا ہے۔

قطر میں واقع طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ زلمے خلیل زاد اور امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر نے طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی بردار سے ملاقات کی ہے۔ ان کے بقول، اس ملاقات کی میزبانی قطر کے وزیرِ خارجہ اور نائب وزیرِ اعظم عبدالرحمن الثانی نے کی ہے۔

اگرچہ اب تک امریکہ کی طرف سے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

قبل ازیں امریکہ کے محکمہ خارجہ نے ایک مختصر بیان میں بتایا تھا کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی قطر میں طالبان کے نمائندوں سے پیر کو ملاقات کریں گے جس کے دوران امن معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں حائل مشکلات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

سہیل شاہین کے مطابق فریقین نے پیر کو امن معاہدے کی خلاف ورزیوں سمیت دیگر معاملات اور ان کے حل کے طریقہ کار کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔

سہیل شاہین نے اگرچہ اس بات کی مزید وضاحت نہیں کی ہے لیکن حال ہی میں طالبان نے امریکہ پر افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم امریکی فوج نے طالبان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے فوجی کارروائیاں افغان فورسز کے خلاف کارروائیوں کے دفاع میں کی جا رہی ہیں۔

یاد رہے کہ 29 فروری کو دوحہ میں امریکہ طالبان معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد مارچ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے پہلے مرحلے میں فریقین کے درمیان قیدیوں کا مکمل تبادلہ ہونا باقی ہے لیکن صدر اشرف غنی نے گزشتہ ماہ طالبان قیدیوں کی مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔

صدارتی حکم کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے 360 سے زائد قیدی رہا کر دیے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے 1500 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here