عالمی فوجداری عدالت کاافغانستان میں انسانی حقوق پامالیوں کی تحقیقات کا فیصلہ

0
217

آئی سی سی نے افغانستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ججوں کے مطابق موجودہ کابل انتظامیہ نے داخلی سطح پر نہ تو ایسی تفتیش کرائی اور نہ ہی کرانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے افغانستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی اجازت دے دی ہے۔ پیر اکتیس اکتوبر کو آئی سی سی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق موجودہ کابل انتظامیہ نے داخلی سطح پر تفتیش میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی، جس کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا۔

2020ء کے اوائل میں اس وقت کی کابل انتظامیہ نے ہالینڈ کے شہر دا ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کرمنل کورٹ سے درخواست کی تھی کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کی تحقیقات کچھ مدت کے لیے معطل کر دی جائیں تاکہ کابل حکومت داخلی سطح پر تفتیش کرا سکے۔ گزشتہ برس اگست میں البتہ امریکی حمایت یافتہ کابل حکومت ختم ہو گئی اور افغانستان پر طالبان کی عمل داری قائم ہو گئی۔

آئی سی سی نے اس ضمن میں جاری کردہ بیان میں کہا، ”جج اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس وقت افغانستان میں تحقیقات اس طریقے سے نہیں ہو رہیں، جو کہ عدالت کے تفتیش روکے جانے کے فیصلے کی وجہ بنی۔ افغان اتھارٹیاں 26 مارچ 2020ء کو جمع کردہ تحقیقات معطل کرنے کی درخواست کے تناظر میں داخلی سطح پر مناسب کارروائی میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہیں۔“

گزشتہ برس ستمبر میں استغاثہ نے آئی سی سی کے ججوں سے رجوع کر کے ان سے تحقیقات بحال کرنے کی درخواست کی تھی۔ ان کی درخواست موجودہ کابل انتظامیہ کے سامنے بھی رکھی گئی لیکن ان پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ اسی تناظر میں 31 اکتوبر کو ججوں نے فیصلہ کیا کہ افغانستان کا رد عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ انتظامیہ نے نہ تو ان معاملات کی جانچ پڑتال کی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی عمل اس وقت جاری ہے۔ ایسے میں آئی سی سی نے پراسکیوٹرز کو تحقیقات کا عمل بحال کرنے کا کہہ دیا ہے۔

سن 2020 میں آئی سی سی کے سابق چیف پراسیکیوٹر فاتو بنسودا نے کہا تھا کہ طالبان کے علاوہ امریکی فورسز اور دیگر ملکوں میں امریکی سی آئی اے پر بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شبہ ہے۔ البتہ موجودہ چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے پچھلے سال امریکہ کو تفتیش کے زمرے سے یہ کہہ کر فہرست سے خارج کر دیا تھا کہ سب سے سنگین جرائم ممکنہ طور پر داعش اور طالبان نے کیے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here