چیئرمین زاہد بلوچ سیاسی جدوجہد کی ایک توانا آواز ہے، بی ایس او آزاد

0
221

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے تنظیم کے سابقہ چیئرمین اور بلوچ قومی تحریک کے اہم سیاسی رہنماء زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو آٹھ سال مکمل ہونے اور ان کی بازیابی کیلئے سیاسی و انسانی حقوق کے اداروں کی کردار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زاہد بلوچ ایک سیاسی مفکر اور بلوچ رہنماء ہیں جنہیں گزشتہ 8 سالوں سے پس زندان میں رکھا گیا ہے جبکہ ریاستی ادارے اس گھناؤنے جرم کے باوجود کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنائے گئے ہیں۔

مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی پاکستان کے اندر سیاسی آوازوں اور سیاسی جہدکاروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی پالیسی کا حصہ ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ زاہد جیسے عظیم مفکر اور بلوچستان بھر میں جانے مانے سیاسی لیڈر کی جبری گمشدگی پر انسانی حقوق کے ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ زاہد بلوچ کو آج سے 8 سال قبل کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن سے نمیران بانک کریمہ کی موجودگی میں جبری طور گمشدہ کیا گیا بانک کریمہ نے زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کا کیس عالمی اداروں کے سامنے بھی رکھا جبکہ گزشتہ سال کریمہ بلوچ کو بھی شہید کیا گیا ہے مگر زاہد بلوچ اب تک گمشدگی کے شکار ہیں اور انہیں اب تک منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تنظیم نے زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے حوالے سے دنیا بھر کو آگاہ کیا ہے اور سلسلے میں تادم مرگ بھوک ہڑتال سے لیکر ریلی و احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا تنظیم نے تادم مرگ بھوک ہڑتال بھی ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی اس یقین دہانی پر ختم کیا کہ زاہد بلوچ کو منظر عام پر لانے کیلئے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے گا مگر احتجاج ختم ہونے کے بعد یقین دہانی بس یقین دہانی تک رہ گئی اور زاہد بلوچ اب تک لاپتہ ہیں –

انہوں نے کہا کہ زاہد بلوچ بلوچستان میں سب سے فعال ترین سیاسی طلباء تنظیم کے چیئرمین تھے ان کی اس طرح جبری گمشدگی اور انہیں منظر عام سے غائب رکھنا سیاسی جدوجہد کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا واضح ثبوت ہے زاہد بلوچ جیسے قومی رہنماء کی جبری گمشدگی یقینا ایک لمہ فکریہ ہے تنظیم کے سابقہ چیئرمین کی بازیابی کے سلسلے میں تمام افراد اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ تنظیم زاہد بلوچ کے قومی سوچ و فکر پر آج بھی قائم ہے اور اسی نظریے کو ان کے نظریاتی سنگت آگے لے جا رہے ہیں گوکہ دشمن زاہد بلوچ کو زندان میں بند کرنے میں کامیاب ہے مگر زاہد کے نظریہ و فلسفہ آج ہر بلوچ نوجوان کے شعور کا حصہ ہے۔ زاہد جیسے سیاسی مفکر اور جہدکاروں کی محنت و قربانی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر بلوچ نوجوان بلوچ قومی آزادی کی سوچ و فکر رکھتا ہے۔ قابض ریاست کے عدالتوں سے ہمیں کوئی امید نہیں مگر عالمی ادارے اور انسانی حقوق کے ادارے زاہد بلوچ کی عدم بازیابی اور انہیں منظر عام پر نہ لانے کے خلاف تنظیم کے جدوجہد کا حصہ بنیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here